صوفیا ء اکرام میں بسنت منانے کی روایت



 
صوفیا ء اکرام میں بسنت منانے کی روایت  =================== تحریر کردہ: محمد سعیدالرحمن ایڈوکیٹ

بسنت ہندی زبان کا لفظ ہے جس کے معنیٰ نغماتِ جوش افزاء و تعشق انگیز ی کے آنے کا موسم کے ہیں، ہندی چھ رُتوں میں پہلی رُت کا نام ۔ بسنت کے پھول سرسوں کے کھلے ہوئے زرد رنگ کےپھول کو کہتے ہیں ۔ اس کے علاوہ بسنت ایک تہوار کا نام بھی جوموسم بہار کے آغازپر بزرگوں کے مزارات اور دیوتاوں کے استھانوں پر سرسوں کے پھول چڑھا کر منایا جاتا ہے اسے ہندو ازم میں بسنت پنچمی کہا جاتا ہے کیوں کہ یہ تہوار ہندی مہینے یعنی ماگھ کی پانچ تاریخ کو منایا جاتا ہے۔ ہندو ازم میں سرسوتی دیوی علم و فن(موسیقی) کی دیوی سمجھی جاتی ہے اور ان کے ہاں اس دن اس دیوی کی پوجا کی جاتی ہے۔ خوشی کے اظہار کے لیے نئے کپڑے پہنے جاتے ہیں اور پتنگیں اڑائی جاتی ہیں اور موسیقی سے لطف اندوز ہوا جاتا ہے۔
اہل ایران بھی بہار کی آمد پر جشن نوروز مناتے ہیں۔ نوروز ایرانی سال نو کا نام ہے جس کا لغوی معنی ہے ‘‘نیا دن‘‘ ۔ اور یہ دن ایرانی تقویم کا پہلا مہینہ فروردین کا پہلا دن ہوتا ہے یعنی نئے سال کے آغاز کےجشن کا دن جو بہت ہی قدیم چشن میں شمار ہوتاہے اور اسے عید کے تہوار کی طرح منایا جاتا ہے اور آنے والے نئے سال میں سلامتی اور ترقی کی دعائیں کی جاتی ہیں۔
اسی طرح برصغیر پاک و ہند میں فروری کے مہینے میں موسم بہار کی آمد کے موقع پر دیگر مذاہب کے افراد بھی بسنت مناتے ہیں جب موسم بدلنا شروع ہو جاتا ہے ،درختوں کے پتے جو سردی سے زرد پڑ چکے ہوتے ہیں وہ ہواؤں سے گر جاتے ہیں ۔ دھوپ میں ہلکی سی تیزی آنے لگتی ہے، درختوں کی شاخیں نئی کونپلوں کے پھوٹنے سے پھر سے سر سبز ہونے لگتی ہیں۔ اس جشن کی تاویل یہ ہے کہ کیونکہ موسم سرما میں سردی کے باعث طبعیت میں انقباص اور آمد بہار میں سیلان خون کے باعث طبعیت میں شگفتگی، امنگ، ولولہ اور ایک قسم کی خاص خوشی اور صفرا کی پیدائش پائی جاتی ہے۔ اہل ہند اس موسم کو مبارک اور اچھا سمجھ کرنیک شگون کے واسطے بسنت مناتے ہیں۔ ان کے ہاں اس جشن کی نسبت ہندو مت کی سرسوتی دیوی کا دن منانے سے قطعی نہیں ہے بلکہ یہ موسم بہار کی وجہ سے طبعیت میں فرحت پیدا ہونےکا جشن ہے جو ایک ثقافتی اورملی جشن کہلاتا ہے ۔
برصغیرپاک وہند کےصوفیاء اکرام بلخصوص سلسلہ عالیہ چشتیہ نظامیہ میں بھی ماہ فروری میں بسنت منانےکا رواج حضرت امیر خسروؒ کی اپنے پیر و مرشد حضرت سلطان المشائخ سید خواجہ نظام الدین اولیاء محبوب الٰہی ؒ سے والہانہ محبت کی ایک یادگار داستان سے منسوب۔
سیرالاولیاء کے مصنف امیرخورد سے روایت ہےکہ خواجہ تقی الدین نوح جوحافظ قرآن، نہایت عبادت گزار ، تعلیم وتعلم کے حریص اور سلطان المشائخ کےخلیفہ اور آپ کے حقیقی بھانجے کے بیٹے تھے اور انہیں سلطان المشائخ سے حد درجے کا انس تھا، دوسری طرف آپ کے پیرو مروشد سلطان المشائخ کو بھی اپنے اس قرابت دار جو درحقیقت حُسن صورت و سیرت میں یکتائے زمانہ خلق تھے سے کمال الفت اور محبت قلبی تھی یہاں تک کہ آپ کو دم بھر بھی ان کے بغیر چین نہیں پڑتا تھا۔ آپ کا معمول تھا انہیں نماز میں اپنی دائیں جانب کھڑا کرتے تاکہ پہلے سلام میں ان کے چہرے مبارک پر نظر پڑھے اوربعد میں دوسرا سلام پھیراجائے۔ خواجہ تقی الدین نوح کے تقویٰ و ریاضت کا یہ عالم تھا کہ آپ ہرجمعہ کی رات کو قرآن مجید ختم کیا کرتے تھے ، ایک روز سلطان المشائخ نےاُن سے پوچا کہ تم اس قدر جو غیرمعمولی عبادت و ریاضت کرتے ہو اس سے تمھارا مقصد کیا ہے؟ آپ نے جواب دیا اس سے مقصد آپ کی حیات (درازی عمر) ہے، اس ارشاد کے بعد آپ نے فرمایا اُس کو یہ بات کس نے سکھلائی ہوگی یہ بات اس کی سعادت کی دلیل ہے۔ آپ نے اُن کے متعلق اپنے مریدوں کو ہدایات فرمائی ہوئی تھی کہ دوستوں اس کو عزیز رکھا کرو، اس نے بہت کچھ حاصل کیا ہواہے۔
بہرحال بقضائے الہیٰ خواجہ تقی الدین نوح نے عین عالم جوانی میں سلطان المشائخ کی حیات میں ہی وفات پائی اور سلطان المشائخ کے روضہ مبارک میں چبوترہ یاران میں مدفون ہوئے۔ خواجہ تقی الدین نوح کے داغ مفارقت سے سلطان المشائخ عجب عالمِ افسردگی اور غضبِ ماتم میں مبتلاہوگے یہاں تک کہ آپ نے سماع سننا بھی ترک کردیا تھا۔
جب اس کیفیت میں چار یا پانچ ماہ گزر گے تو ایک روز آپ تالاب کی سیر کے لیے اپنے مریدین کے ساتھ تشریف لے گے، اتفاقاً ان دنوں بسنت پنجمی کا میلہ تھا۔ امیر خسرو کسی سبب سے ان سب سے پیچھے رہ گے تھے، راہ میں سرسوں کا ایک کھیت تھا، امیر خسرو نے چند دیہاتی عورتوں کو پیلا لباس پہنے، زرد پھول اٹھائے، خوشی میں گاتے ہوئےاپنے بھگوانوں کو پھولوں کا نذرانہ پیش کرنے جاتے ہوئے دیکھا، انہیں بھی خیال آیا کہ میں اپنے پیر کو خوش کرؤں، چنانچہ ان کے دل میں ایک خوشی اور انبساط کی کیفیت پیدا ہوئی آپ نے اس ہی کھیت میں کھڑےہوئےکر اپنا صافہ کھولا، کانوں اور بالوں میں سرسوں کے پھول لگائے اور بلند آواز سے یہ مصرع:
اشک ریز، آمدہ است ابر بہار
(بہار کے بادل چھائے ہوئے ہیں تو بھی آنسو بہا)
لحن میں گاتے ہوئے مست حال میں اُسی تالاب کی طرف چلے دئیے جہاں آپ کے پیرومرشد تشریف لے گئے تھے۔ جہاں تک آپ کےاس مصرع کی آواز پہنچتی یہ معلوم ہوتا ایک زمانہ گونج رہا ہے ایک تو امیر خسروفن موسیقی کے نایک اور عدیم المثال سرور خواں تھے دوسرے اس ذوق و شوق نےاور بھی اگ بھڑکا دی تھی، تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ سلطان المشائخ کو خیال آیا کہ آج ہمارا ترک یعنی خسرو کہاں رہ گیا ہے، اغلب ہے کہ کچھ سریلی بھنگ بھی آپکے گوش مبارک میں پہنچی ہو، آپ نے پے درپے اپنے کئی مریدوں کو انہیں لانے بھیجا، وہ جو تلاش کرتے ہوئے آئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ امیرخسرو عجب رنگ میں گاتے ہوئے مستانہ چال و معشوقانہ انداز سے خراماں خراماں جھومتے ہوئے چلےآ رہے ہیں وہ بھی کچھ ایسے مست ہوئے کہ اس ہی رنگ میں مل گئے۔ غرض ان میں سےایک شخص نے نے واپس آ کر سلطان المشائخ کو بتایا کہ امیر خسرو کو ساتھ لانا مشکل ہے، اس پر سلطان المشائخ خود ہی امیر خسرو کو لانے چل دیے، امیر خسرو نے دور سے اپنے پیرومرشد کو آتے دیکھا توان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے جس وقت آپ قریب آگے تو امیرخسرو نے یہ شعر پڑھا:
اشک ریز، آمدہ است ابر بہار
ساقیا گل بریز بادہ بیار
دوسرے مصرح کا سننا تھا کہ اس کاآپ کے دل پر گہرا اثر ہوا اور آپ بے تاب ہوگے اوراپنے دامن وگریبان کو چاک کرڈالا اور گلے میں باہیں ڈالے ہوئے امیرخسرو کوساتھ لے کرتالاب کے کنارے آئے، منقول ہے کہ کافی دیر تک گریہ کا یہ بازار گرم رہا اور اہل ِذوق مرغ ِبسمل کی طرح ٹرپتے اور پھڑکتےرہے اس دن کے بعد سے حضرت نظام الدین اولیاؒ کے دل پر اپنے بھانجے کی موت کا غم ہلکا ہونے لگا اورآپ نے پھر سےسماع سننا شروع کردیا۔
مولوی سید احمد دہلوی مولف فرہنگ آصفیہ لکھتے ہیں کہ اسی وقت سے بسنت کا میلہ مسلمانوں نے بھی منانا شروع کرویا ۔ دہلی میں چاند رات کو ایک پہاڑی پر اللہ میاں کی بسنت چڑھائی جاتی۔ پہلی تاریخ کو قدم رسول پر، اس کے بعد حضرت خواجہ نصیرالدین چراغ دہلی کے مزارپر، پھرحضرت خواجہ نظام الدین اولیاء,کے ہاں بسنت چڑھائی جاتی ہےاور قوال بسنت کے گیت گاتے اور سب سے آخر میں مولانا تقی الدین نوح کے مزار پر بسنت چڑھائی جاتی۔
دہلی میں بسنت کا آغاز عصر کی نماز کے بعد کیا جاتا ہے۔قوال حضرات نظام الدین بستی کی ایک گلی میں جمع ہوتے ہیں اور زائرین بھی قوالوں کے اس قافلے میں شامل ہوتے جاتے ہیں۔ پھر بسنت کا یہ قافلہ اس بستی کی مختلف گلیوں سے گزرتا ہے اور سلطان المشائخ کے بھانجے خواجہ تقی الدین نوح کی لحد پر رکتے ہوئے درگاہ میں داخل ہوتا ہے۔ درگاہ کے احاطے میں داخل ہونے کے بعد قوال اور عقیدت مند اپنے ساتھ لائی پیلی چادریں سروں پر تان کر مزار اقدس میں داخل ہوتے ہیں۔ یہ سال کا واحد موقع ہوتاہے جب قوالی مزار کے اندر سلطان المشائخ کی لحد مبارک کے پاس ہوتی ہے،سال کے باقی ایام میں قوالی باہر صحن میں ہوتی ہے۔ قوالی کے بعد قوال حضرات وزائرین امیر خسرو کی درگاہ پر جاتے ہیں اور بسنت کے پھول وچادریں چڑھا تے ہیں۔ درگاہ کا صحن بھی مختلف عقائد اور طبقات سے تعلق رکھنے والے لوگوں سے بھرا ہواہوتا ہے ۔
حضرت خواجہ معین الدین حسن چشتی کی درگاہ میں بھی اس ہی روز زائرین و قوال حضرات درگاہ کےنظام گیٹ سے جلوس کی شکل میں بسنت پیش کرنے کے لئے چادریں و سرسوں کے پیلے پھولوں کا گلدستہ لے کر بسنتی کلام پیش کرتے ہوئے مزار شریف پہنچتے ہیں اور خواجہ غریب نوازؒ کی بارگاہ میں بسنت پیش کی جاتی ہے۔ اس مناسبت سے بسنت کی رسم پاک وہند کی دیگر آستانوں و درگاہوں میں بھی منائی جاتی ہے اور قوالوں سے بسنت کے گیت و رنگ سننے کے لیے محفل سماع کا انعقادہ کیا جاتا ہے ۔ صوفیاء, میں رنگ سننے کے متعلق یہ بھی روایت ہے کہ صاحبان ِذوق محفل ِسماع کے اختتام پر خصوصی طور پر قوال سے رنگ سنتےہیں۔ آج رنگ ہے ری ماں رنگ ہے ری، مورے خواجہ کے گھر رنگ ہے ری اور اہل محفل پر بے انتہا وجدانی کیفت طاری ہوجاتی۔ والسلام ، مرتب کردہ : محمد سعید الرحمن ایڈوکیٹ۔

Comments

Popular posts from this blog

جون ایلیا ایک تعارف

Hazrat Sayyed Ahmad Kabir Rifai Rahematullah Alaih / حضرت شیخ سید احمد کبیر رفاعی قدس سرہ العزیز