سماع صوفیانہ محفل
سماع (صوفیانہ محفل سماع)
==============
تحریر کردہ : محمد سعید الرحمن ایڈوکیٹ
آلھی تا بود خورشید و ماہی
چراغ چشتیاں را روشنائی
سماع عربی زبان کا لفظ ہے اور اردو میں عربی سے ماخوذ ہے۔ سماع سے مراد وہ حال یا وجد ہےجو راگ یا قوالی سن کر آتا ہے۔ اسلام دینِ فظرت ہونے کی بناء پرفطرت جمال اور توازن سے ہم آھنگ ہے۔ لہذا کامل انسان وہی کہلا تے ہیں جن کی شخصیت جمال اور جلال دونوں کی آئینہ دار ہو۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ ترنم یا خوبصورت آواز انسانی طبیعت پر بہت خوشگوار اثرات مرتب کرتی ہے اور یہ ایک فطری عمل ہے کیونکہ کائنات میں نغمگی ایسے سمائی ہوئی ہے جیسے جسم میں روح۔چشموں اور آبشاروں کی آواز، پرندوں کی چہکار، بلبل کا نالہ، صبح چلتی ہوئی اثر انگیز ٹھنڈی ہوا، نظام ِ قدرت میں شامل قدرتی موسیقی ہی کا نام دیا جاسکتا ہے۔ انسان کی ایک دنیا یہ عالم ،زمان و مکان ہے اور دوسری اس کی دل کی دنیا ہے۔اسے ان دونوں عالموں میں رہنا پڑتا ہے۔جب یہ دونوں جہاں اس کے ہیں اور وہ اس میں رہنے پر مجبور ہے تو پھر اپنے جمالیاتی تقاضوں کی تشفی کے لیے بھی اسے دونوں جہانوں کوحسین بنانا ناگزیر ہے۔ آپ رسول اکرم ﷺکا ارشاد ہے اَللہ ُ جَمیِلُٗ وَّ یُحِبُّ الجمال۔
گویافطرت کو پروان چڑھانے کا نام ہی اسلام ہے۔ خوش الحانی کی بابت حضرت علی بن عثمان ہجویری ؒ فرماتے ہیں جو شخص کہتا ہے مجھے خوش آوازی متاثر نہیں کرتی وہ یا تو جھوٹا ہے یا بد ذوق ہے۔ سماعتِ موسیقی کےبارے میں امام ابو حامد غزالیؒ فرماتے ہیں موسیقی ایک ذوق ہے اوربے ذوق شخص اس کی اہمیت کو سمجھنے سے قاصر ہے۔
حضرت ربیع بنت معوذؓ سے روایت ہے حضور اکرم ﷺ میری شادی کے موقع پر ہمارے ہاں تشریف لائے اور میرے سامنے جلوہ افروز ہوئے اس موقع پرکچھ بچیاں دف بجا بجا کر گارہی تھیں (بخاری شریف)۔ایک اور حدیث کا مفہوم ہے جوکہ حضرت سائب ؓ اور حضرت جمیرؓ سے روایت ہے کہ حضورﷺ نے حضرت عائشہ ؓ کے پاس آئی ہوئی ایک دف نواز اور تارا نواز کا نغمہ سنا تو فرمایا”کتنی خوش آواز ہے یہ خاتون” (سنن نسائی، معجم طبرانی)۔ حضرت بریدہ ؓ فرماتے ہیں کہ سرکارِ رسالت مآب ایک غزوہ سے واپس تشریف لائے تو ایک یمنی یا حبشی خاتون آپﷺ کے پاس آئیں اور کہا یا رسول اللہ ﷺ میں نے منت مانی تھی کہ جب آپﷺ خیریت سے واپس آ جائیں گے تو میں دَف بجا کر گانا گاوں گی۔آپﷺ نے گانے کی اجازت دے دی (جامع ترمذی)۔
اہل طریقت کے نزدیک برائےمعرفت سماع روح کی غذا ہے کیونکہ یہ ایک ایسا ذوق ہے جو بہت ہی لطیف اور جمالیات سے لبریز ہےاور اپنی اس لطافت کی وجہ سے اس ذوق کا رقیق طبیعت کے مالک اصحاب ہی ادراک کرسکتےہیں اور چونکہ یہ ذوق اہل لوگوں کیلئےلطیف اور صاف شفاف ہےاس لئے جب باطن صاف ہو تب ہی اس کا ادراک ہوتا ہے۔ صوفیاءِ اکرام سماع کودل و دماغ کی روحانی تسکین کے لیے جائز اور قرب الہیٰ کے لیے مستحب سمجھتے ہیں۔ حضرت جنیدبغدادیؒ فرماتے ہیں سماع کے موقع پر سالکین پر خاص رحمت نازل ہوتی ہے چونکہ اس وقت ان کی توجہ اللہ کی طرف ہوتی ہے۔ حضرت شیخ دینوری ؒ فرماتے ہیں میں نے خواب میں حضورؐ کو سماع کی محفل میں حالتِ وجد میں دیکھا۔تب سے میں سماع کا قائل ہو گیا۔اس سے پہلے میں مختلف فقہاء کی رائے جان کر پریشان رہتا تھا۔
شیخ عبدالحق محدث دہلوی مدارج النبوہ میں ہی لکھتے ہیں وہ تمام فقہاء جو سماع، گانے اور مزامیر وغیرہ کے سخت منکر ہیں اور اس بارے میں تعصب اور عناد کا انداز رکھتے ہیں اور اس فعل کو کبیرہ گناہ اور اس کے جواز کے عقیدے کو کفر زندقہ اور الحاد سمجھتے ہیں، ان فقہاء کا یہ طرز عمل سراسر زیادتی ہے اور اعتدال و انصاف کے منافی ہے۔ حرام کا اطلاق کس قسم کی موسیقی پر ہونا چاہیے اس کی وضاحت ملا جیون نےتفسیر احمدی میں یوں فرمائی ہے کہ ہمارے زمانے کے لوگ (موسیقی کی) مجلسیں منعقد کر تے ہیں، اس میں شراب پیتے اور فواحش کا ارتکاب کرتے ہیں، فاسقوں اور لونڈوں کو اکٹھا کرتے ہیں، جس سے محض نفسانی خواہشات کی تکمیل ہوتی ہو ۔ ان مکروہ اعمال کے سخت گناہ ہونے اور انہیں جائز سمجھنے کے کفر ہونے میں کوئی شک نہیں کیونکہ لہوالحدیث سے یہی مراد ہے۔آیت مبارکہ ہے وَمِنَ النَّاسِ مَن يَشْتَرِي لَهْوَ الْحَدِيثِ لِيُضِلَّ عَن سَبِيلِ اللَّهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ وَيَتَّخِذَهَا هُزُوًا ۚ أُولَٰئِكَ لَهُمْ ... لَهْوَ الْحَدِيثِ لِيُضِلَّ عَن سَبِيلِ اللَّهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ وَيَتَّخِذَهَا هُزُوًا ۚ أُولَٰئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ مُّهِينٌ ( اور بعض لوگوں میں سے وہ ہے جو خریدتا ہے لہو حدیث (لغوباتوں) کو تاکہ اﷲ تعالیٰ کے راستے سے لوگوں کو بغیر علم کے گمراہ کرے اور اس کو مخول کی ہوئی چیز بتائے۔ ایسے لوگوں کے واسطے نہایت ذلت و خواری کا عذاب ہے ) سورۃ لقمان پارہ ۲۱ رکوع ۱ ۹۔
علامہ شامی لکھتے ہیں ”آلہ لہو “حرام بذاتہ نہیں ہوتے ہیں، یہ (آلہ موسیقی) ایک موقع پر حلال ہوتےہیں اور ایک موقع پر حرام۔یہ فرق اس کے مقصد اور گانے والے کی نیت کی وجہ سے ہوتا ہے۔ اس ضمن میں حضرت احمد رضا خان ل بریلویؒ فرماتےہیں کہ فسق کے میلوں اور رقص کے جلسوں میں جانا حرام ہے۔ اپنی تقریبوں میں ڈھول جس طرح فساق میں رائج ہے بجوانا، ناچ کرانا حرام ہے۔
رقص و حال کے بارے علماء کا اختلاف ہے ایک گروہ کراہت کا قائل ہےبعض لوگ اباحت کے قائل ہیں اور بعض حضرات کا خیال ہے کہ جن لوگوں پر واقعی حال طاری ہوتا ہے ان کا اوردوسرے لوگوں کا حکم مختلف ہے۔ سماع ارباب حال (اہل) کیلئے جائز ہےاوروہ جو ارباب حال نہیں ہیں (نااہل) کیلئے جائز نہیں ہے۔ مشائخ صوفیاء کایہی مذہب ہے۔
حضرت بابا فرید الدین مسعودگنج شکر سےدریافت کیا گیا کہ حضور سماع جائز ہے یا نا جائز؟آپ نے فرمایا سبحان اللہ ایک شخص تو ایک چیز سےجل کرخاکستر بن گیا اور آپ ابھی تک اس کے جائز اور ناجائز کی بحث میں پڑے ہوئے ہیں۔ حضرت بابا صاحب نے سماع کو راحت دل قرار دیاہے کہ یہ اہل محبت کے دل میں حرکت پیدا کرتا ہے اورحرکت کے بعد حیرت اور حیرت کے بعد ذوق اورذوق کے بعدبے ہوشی طاری ہوجاتی ہے۔ آپ نے فرمایا سماع انہی لوگوں کے لیے جائز ہے جو اس میں ایسے مستغرق ہوں کہ ایک لاکھ تلوارین ان کے سر پر ماری جائیں یا ایک ہزار فرشتے ان کے کان میں کچھ کہیں تو بھی ان کو خبر نہ ہو۔
اہلِ تصوف کے نزدیک سماع کی بنیادی شرط سچے مجاہدے کے ساتھ سالک کا اپنے نفس کو فنا کرنا اور پھر مشاہدے کی روح سے دل کو زندہ کرنا ہے۔ پس جس نے صحیح طور پر اپنا معاملہ سر انجام نہ دیا اور سچائی کے ساتھ اپنے مراتب کو نہ پا سکا تو اس کا سماع اور کیفیاتِ وجد کا اظہار بناوٹی ہے۔ اس ہی لیے سماع کے آداب کو ملحوظِ خاطر نہ رکھنے کے سبب حضرت سیِّدُنا امام ابو القاسم قشیری فرماتے ہیں آج کل کے اکثر بناوٹی صوفیوں پر سماع اور رقص حرام ہے۔
حضرت علی ہجویریؒ نے بھی اپنی تصنیف کشف المحجوب میں سماع سے متعلق ایک باب تحریرفرما یا ہےجس میں آپ فرماتے ہیں سماع کے آداب کی شرطیں یہ ہیں کہ جب تک اس کی ضرورت نہ ہو نہ کیا جائے اور اس کو اپنی عادت نہ بنایا جائے تاکہ اس کی عظمت دل سے اٹھ نہ جائے۔سماع کا مکان عام لوگوں سے خالی ہو۔ قوال بھی شریعت کا احترام کرنے والا ہو۔دل دنیا کے دھندوں سے خالی اور طبیعت لہو و لعب سے متنفر ہو۔ مبالغہ سے پاک ہو اور سُننے والے میں اتنی استطاعت ہو کہ فیضانِ حق کو قبول کر سکے۔ آپ فرماتے ہیں کہ شریعت اور طریقت میں رقص اوردھمال کی کوئی سند موجود نہیں ہے۔ فضول لوگوں اور جاہل پیروں نے اس کو اپنا شعار بنا لیا ہے۔جب کہ اکابرمشائخ میں سے کسی بزرگ نے اس کی تعریف نہیں کی۔واضح رہےکہ رقص اور دھمال کرنا ایک اختیاری عمل ہے اور یہ سفلی جذبات کے اظہار کا نمونہ ہیں اس لیے یہ عمل بناوٹی سماع کہلاتا جو کہ ناجائز ہے۔ جب کہ وجد (حال ) ایک بے اختیاری کیفیت ہے اس لیے رقص و دھمال کو وجد (حال) کے زمرے میں شامل نہیں کیا جاسکتا ہے۔ وجد ایک ایسا روحانی جذبہ ہے۔ جو اللہ کی طرف سے باطن انسانی پر وارد ہو جس کے نتیجہ میں خوشی یا غم کی کیفیت پیدا ہوتی ہے۔ اس جذبے کے وارد ہونے سے باطن کی ہیت بدل جاتی ہے اور اس کے اندر رجوع اِلَی اللہ کا شوق پیدا ہوتا ہے۔ گویا وجد ایک قسم کی راحت ہے، یہ اس شخص کو حاصل ہوتی ہے جس کی صفات ِنفس مغلوب ہوں اور اس کی نظریں اللہ تعالٰی کی طرف لگی ہوں۔
حضرت شاہ محمد ذوقی ؒ اپنی تصنیف سر دالبران میں راقم طراز ہیں کہ محض گانا سننا یا اشعار سننانا یا کمالات موسیقی سے لذت نفس حاصل کرنا صوفیاء اکرام کی اصطلاح میں سماع سے تعبیر نہیں کیا جاتا ہے بلکہ ان حضرات کے نزدیک مجلس سماع اُس کو کہتے ہیں جب کہ اہل صفاء حظوظ نفسانی سے مجرد اور عادت شہوانی سے بے تعلق ہوکر صدق و صفا کے ساتھ طلب الہیٰ کے ذوق و شوق میں جمع ہوں اور بپابندی شرائظ ِ ضروریہ و آداب مناسبہ اصحاب حال و مواجید کا توحید و عشق میں ڈوبا ہوا کلام موزوں حسن صوت اور لحن دل کش میں سنیں اور از اول تا آخر حضور ِقلب سے حق تعالیٰ کے ساتھ قیام کرنے سے نہ کہ کسی اور غرض سے اجتماع رکھیں۔ جو سماع ان لوزامات سے خالی ہے وہ صوفیاء کے نزدیک سماع نہیں اجتماعات رسمی اورنمائشی ہے جسکا حقیقی تصوف کی دنیا میں کوئی دخل نہیں۔
حضرت شاہ کلیم اللہ جہاں آبادی جنہیں چشتیہ سلسلے کی تاریخ میں ایک خاص اھمیت حاصل ہے اوران کے زمانے سے سلسلے چشتیہ کا دور تجدید اور احیاء شروع ہوتا ہے ان کے دور (اٹھارویں صدی) میں سماع کے اُن اصولوں سے جب بے اعتنائی عام ہوئی تو وہ اُس سماع کو ناجائز سمجھتے تھے اور ایسے سماع کو ہائے ہوئے سماع کہتے تھے۔آپ فرماتے ہیں کہ مشائخ چشت نے سماع کو روحانی غذا سےیقیناً تعبیر کیا ہے مگر ساتھ ساتھ اس کے سخت اصول بھی مقرر فرمائے ہیں جن کے بغیر سماع ناجائز ہے ۔آپ ہدایت کرتے تھے کہ سماع کی بجائے مراقبہ میں وقت صرف کیا جائے۔مراقبے کا حلقہ سماع کے حلقے سے زیادہ وسیع کرنا چاہیے۔ آپ بانفسہٰ سماع کے مخالف نہیں تھے مگرزمانے کی رروش دیکھ رہے تھے اس لیے ڈرتے تھے کہ کہیں سماع کی شکل مسخ نہ ہوکر رہ جائےاس لیے حالات نے آپ کو اس معاملے میں سخت گیر بنادیا تھا۔جب برصغیر پاک و ہند میں مشائخ نقشبند کے اثرات زیادہ پھیل گئے تو آپ نے اس خیال سے کہیں کوئی ناگوار صورت پیدا نہ ہو اس امر کی کوشش بھی کی کہ جہاں مشائخ نقش بند کا اثر ہو وہاں سماع کو بند رکھا جائے۔ والسلام (محمد سعید الرحمنٰ،ایڈوکیٹ
Comments
Post a Comment