حضرت شیخ ابو الحسن الشاذلیؒ سلسلہ شازلیہ کے امام
سلسلہ شازلیہ کے امام شیخ ابو الحس الشاذل
دعائےحزب البحر روحانی ترقی ومخفی مخلوقات کو تابع کرنے کا ایک مجرب وظیفہ
مرتب کردہ: محمد سعید الرحمن ایڈوکیٹ
=========================================
شیخ ابوالحسن شاذلی کا نام ابوالحسن علی بن عبد الله تھا آپ سلسلہ شاذليہ کے بانی ہیں ۔آپ کی ولادت باسعادت593ھ،مطابق 1197ء کو بمقام قصبہ"غمار"مراکش،مغرب میں ہوئی ۔ وہاں سے آپ کے خاندان نےقصبہ"شاذلہ"تیونس کی طرف رہائش اختیار کی ،اسی کی نسبت سے آپ "شاذلی"کہلائے گے۔آپ حضرت سیدنا عبدالسلام بن مشیش علیہ الرحمہ کےدستِ حق پرست پر بیعت ہوئے،اورمجاہدات وسلوک کی منازل طےکرنےکےبعد خلافت واجازت سےمشرف ہوئے۔ طریقہ شاذلیہ بواسطہ حضرت جابر جعفی سے ہوتا ہوا حضرت سیدنا حضرت امام حسن سے ملتا ہے۔
شیخ شازلی کے پیر طریقت حضرت شیخ عبد السلام مشیش نے حضرت شیخ ابو مدین مغربی سے کسب فیض کیا تھا، حضرت شیخ ابومدیں مغربی کی ملاقات سفر حجاز کے دوران حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی سے بھی ہوئی تھی جنہوں نے انہیں خرقہ خلافت بھی عطا کیا اس لحاظ سے سلسلہ شاذلیہ سلسلہ قادریہ سے بھی جڑا ہوا ہے۔ واضع رہے کہ حضرت شیخ ابومدین کو شیخ مغرب کہا جاتا ہے(حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی غوثِ صمدانی علیہ رحمۃ الرحمان کو شیخِ مشرق کہا جاتا ہے)۔ حضرت شیخ ابو مدیں کی صحبت وخدمت میں رہ کر بہت سے مشائخ نے تربیت پائی ہےجن میں حضرت شیخ محی ابن عربی ؒ بھی شامل ہیں ۔ حضرت شیخ ابو مدیں ایک صاحبِ کشف و کرامت اور سر زمینِ مغرب کے مشائخِ کبار سے تھے۔ ایک روز آپ نے دیارِ مغرب کے کسی مقام پر گردن جھکا کر کہا۔ اللھم انی اشھدک واشھد ملائکتک انی سمعت واطعت۔ حاضرین نے اس کا سبب پوچھا۔ فرمایا: شیخ عبدالقادر جیلانی قدس سرہٗ نے بغداد میں یہ فرمایا قدمی ھٰذہ علی رقبۃ کل ولی اللہ۔ اس کے بعد بغداد کے بعض اکابر حاضر ہوئے اور انہوں نے بھی اطلاع دی کہ حضرت غوث الاعظم نے اُسی وقت یہ الفاظ فرمائے تھے۔
حضرت شیخ ابو الحسن شاذلی نسباً سادات بنی حسن سے ہیں آپ کا 17 واسطوں سے نسب حسن بن علی کے ساتھ جا ملتا ہے۔۔ آپ نے اوائل عمری میں تونس میں مقیم ہو کر تحصیل علم کی ابتدائی بنیادی تعلیم اورحفظ قرآن مجید اپنےقصبے"غمارہ"میں حاصل کی،پھرشاذلہ میں تحصیلِ علم کیا۔شاذلہ سے"فاس"کی طرف مزید حصول علم کےلئےسفرکیا۔یہاں تمام علوم شرعیہ اور فقہ مالکی کی تحصیل فرمائی، فقہ اورعربی ادب کےاساتذہ میں شیخ نجم الدین بن اصفہانی کانام آتاہے،اورعلم الاخلاق وتزکیہ کی تحصیل صوفی ِکبیر عبداللہ بن ابوالحسن بن حرازم تلمیذ رشید سیدی ابومدین غوث علیہ الرحمہ سے حاصل کی۔پھر آپ عراق تشریف لائے اس وقت عراق علوم اسلامیہ کامرکزتھا،یہاں مختلف شیوخ سےتحصیل ِعلوم کیا،آپ علیہ الرحمہ تمام علوم ظاہرہ میں کمال رکھتےتھے اور بعدہُ طریقت میں تونس کے شیخ المشائخ حضرت عبدالسلام بن مشیش سے فیضیاب ہوئے۔
حضرت امام غزالی کے علمی مقام کی بابت حضرت شیخ سید ابو الحسن شاذلی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں خواب میں حضور اکرم ﷺ کی زیارت سے مشرف ہوا تو دیکھا کہ حضور اکرم ﷺ حضرت موسی علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے سامنے حضرت امام غزالی رحمتہ اللہ علیہ پر فخر فرماتے ہوئے فرما رہے ہیں کیا تمھاری امتوں میں میرے غزالی جیسا کوئی عالم ہے دونوں نے عرض کی نہیں۔
آپ کو یہ بھی سعادت حاصل ہے کہ مشہور و معروف درود تاج جو مرتب کردہ سیدنا الإمام الحبیب شیخ ابوبکر رحمتہ اللہ علیہ کا ہے آپ نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی جناب میں زیارت کے وقت پیش کیا تھا ۔ صاحب درود تاج حضرت شیخ ابوبکر بن سالمؓ نے 27 ذی الحجہ 299 ھجری اس دارِفانی کو خیرباد کیا اور دارالبقاء کے مسافر ہوئے۔ آپ کی تدفین عینات کے قبرستان میں عمل میں آئی اور مزارپرانوار پر گنبد بھی تعمیر کیاگیا جو زیارت گاہِ خلائق ہے۔
بارگاہ رسالت مآب ﷺ سے حضرت شیخ ابو الحسن شازلی رحمتہ اللہ علیہ کے قلب پر دوران سفر حج حفاطت کے لیے ایک خاص دعا سمندر میں القا ہوئی جو صوفیوں میں دعائے حزب البحرکے نام سے مشہور ہے۔بہت سےاولیائےکرام اس دعا کی فضیلت سے مقام ولایت کی منازل طے کرگئے ہیں۔ یہ دعا صوفیاءمیں بہت مقبول ہے اور تمام سلاسل کے بزرگوں نے اس کو اپنایاہے. آپؒ فرماتےہیں” اس دعا کے الفاظ میں نے نہیں تراشے بلکہ ایک ایک حرف رسول اللہ ﷺ سےعطاہوا اورمیں نےنہ صرف یہ کہ خود اس کو اپنے ورد میں رکھا اور اس کے ذریعے روحانی فیوض و برکات حاصل کئے بلکہ راہ سلوک طے کرنے والوں کے لئے اس کو عام کیا“ ۔ آپ نے اپنے مریدین ومعتقدیں کو اس جزب کے بارے میں وصیت کی کہ اپنی اولادوں کو یہ حزب زبانی یاد کراؤ ، بے شک اس میں اسم اعظم ہے ۔ امام ابو الحسن شازلی فرماتے ہیں اگر میرا یہ حزب بغداد میں پڑھا جاتا تو وہ چھینے جانے سے بچا رہتا۔ یہ حزب وفا ہونے والا ودعدہ اور حفاظت کرنے والی ڈھال ہے۔ اس کے علاوہ مختلف اوقات میں اس کے پڑھنے کے بہت سارے خواص ہیں ۔ حضرت ابن عیا د ؒ سے روایت ہے کہ جو کوئی اس دعا کو طلوع آفتاب کے وقت بڑھے اللہ تعالیٰ اس کی دعا کو مقبول، اس کی تکلیف کو رفع اور لوگوں کے درمیان اس کی قدر ومنزلت کو بلند اور اس کی تنگدستی کو کشادگی میں تبدیل فرما دے گا۔
حزب البحر جنات کے ہاں بھی بہت مقبول وظیفہ ہے اور بڑے بڑے عالم فاضل جنات اس کو پڑھتے .حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ حزب البحر کے بہت بڑے عامل تھے،آپؒ نے فارسی میں اسکی عالمانہ و عارفانہ شرح لکھی تھی جو ہوامع کے نام سے طبع ہوکر مقبول خاض و عام ہوئی ہے، آپ ؒ نےاس کتاب میں لکھا مجھے حضرت ابوالحسن شاذلیؒ کے مقام میں قائم کیا گیا ہے اور حزب البحر کے اسرار منکشف کئے گئے ہیں جو اختصار کے سا تھ اس کتاب میں لکھتا ہوں ۔تمام حقائق و معارف کیلئے تو ایک دفتر درکار ہے، ایک طالبِ صادق کے لئے اسی قدر معلومات کافی ہے جو میں نے ہوامع کے عنوان سے جمع کردی ہے“
کیوں کہ دعائے حزب البحر ایک خاص دعا ہے جو قطب عالم حضرت ابو الحسن شاذلی رحمہ اللہ تعالٰی سے منسوب ہے۔ یہ دعاء ہزارہا اولیائے کاملین کے ورد میں رہی ہے اور اب بھی ہے۔ اس دعاء کو پڑھنے کے لیے خاص اجازت کی ضرورت نہیں کیونکہ دعا، دعا ہی ہوتی ہے۔ اور دعا ہر کوئی مانگ سکتا ہے۔ البتہ اولیاء اللہ کا معمول رہا ہے کہ اجازت لی جائے اور دی جائے۔ اس سے برکت بھی ہوتی ہے، تاثیر میں بھی اضافہ ہوتا ہے اور توجہ بھی حاصل ہوتی اس لیے کسی صاحب اجازت سے اس دعا کے پڑھنے کی اجازت لے لی جائے تو مناسب ہے۔اس طرح کی اجازت عاملانہ اجازت نہیں کہلاتی بلکہ برکت والی اجازت کہلاتی ہے۔
اگر کوئی شخص دعائے حزب البحر کا عامل ہونا چاہتا ہو تو اس کے لیے پہلے چند شرائظ کے ساتھ زکواۃ دینا لازمی ورنہ ہلاکت و ضرر کا امکان ہے۔ اس کے لیے پہلے کسی صاحب مجاز سے اجازت لی جائے اور دوران زکواۃ کے ایام میں جو صفر المظفر کی 6۔ 8 تاریخ ہےترک حیوانات جلالی و جمالی، کپڑا سلا ہوا نہ پہنے ویسا ہی پہنے جیسے کے احرام کا پہنتے ہیں۔روزہ رکھے اور مسجد میں اعتکاف کرئے۔ یعنی صفر کی چھ سات آٹھ تاریخ اعتکاف کرئےاور لفظ بحر کے دو سو دس (210) عدد ہوتے ہیں، اس لئے ان تین تاریخوں میں دو سو دس کی تعداد کو تقسیم کردیا۔ پس بہ نیت ادائے نصاب ماہ صفر کی 6۔7۔8 تاریخ معتکف ہو کر روزہ رکھے اور تین مذکورہ تاریخوں میں بعد نماز ظہر روزانہ ستر بار حزب البحر پڑھے۔بعد ادائے نصاب 9/صفر کو بہ نیت ایصال ثواب برائےروح حضرت ابوالحسن شازلیؒ حسب مقدور چند مساکین کو کھانا کھلایا جائے اور اگر استعداد ہے تو ایک گائے ذبح کرئے یا پھر جیسی استطاعت ہو کوئی جانور ذبح کرکے صدقہ کردے۔ زکواۃ کا یہ طریقہ زکواۃ کبیر کہلاتا ہے ۔
زکواۃ متوسط یہ ہے کہ بارہ دن 12 میں دعائے حزب البحر 360بار پڑھے یعنی ہر روز 30بار پڑھے اور ہر روز ایک مرغ ذبح کرکے صدقہ کرئے اور ہوسکے تو کچھ نقد بھی۔ اور زکواۃ صغیر یہ ہے کہ چالیس دن میں 360بار پڑھے۔ بعض کا قول ہے کہ چھ دن میں 60 دفعہ روز کے حساب سے یہ دعا بڑھے۔ اس کی زکواۃ کا ایک آسان طریقہ یہ بھی ہے کہ سال بھر بلا ناغہ ایک بار کسی مقرر وقت پر یہ دعا پڑھ لیا کرئے مگر گائے کے گوشت سے ہمیشہ پرہیز رکھے۔
بعد نصاب روزانہ ایک بار پڑھنا کافی ہے۔ روزانہ ورد کیلئے وقت مقرر کرنا ضروری ہے، کسی ایک وقت کو مخصوص کرکے معمول بنالیا جائے، جب کسی حاجت کے لئے حزب البحر پڑھنا چاہےتو پہلے ایک بار سورہ فاتحہ پڑھ کر ہر جائز حاجت کے لئے بارہ بار روزانہ پوری حزب البحر پڑھنا چاہئے جب تک حاجت براری نہ ہو۔
جو انسان اس دعا کا عامل بن جاتا ہے اس پر حجابات اٹھ جاتے اور مخفی مخلوقات اسکے تابع ہوجاتی ہیں ۔دعائے حزب البحر جس گھر میں روزانہ پڑھی یا سنی جاتی ہے وہاں اللہ کی رحمتوں کا نزول ہوتا ہے ،شیاطین اس گھر سے بھاگتے ہیں ۔نیک ارواح پہرہ دیتی ہیں تاہم اس سلسلہ میں پاکیزگی اور خوشبویات کا اہتمام رکھنا لازم ہے کیونکہ نیک ارواح خوشبویات پسند فرماتی ہیں۔
ویسے دعا اور عملیات کی زکوةزندگی میں صرف ایک بار کافی ہوتی ہے، ہر سال ضروری نہیں؛ البتہ اگر زکوة کا عمل مختصر ہو تو دعا یا عمل کی قوت مزید بڑھانے کے لیے ہر سال زکوة کا عمل کرلینا بہتر ہےلہٰذااگر عاملیں کو چاہیے کہ ہر سال دعائے حزب البحر کی زکوة کا عمل کرلیا کریں ، یعنی: تین روزے معہ اعتکاف رکھ کر تینوں دن روزانہ دعائے حزب البحر تین مرتبہ پڑھیں ، ایک بعد نارزمغرب ، دوسری بعد نماز عشا تیسری بعدنماز چاشت تو بہتر ہے۔
آپ کا وصال حج کے سفر کے دوران 20/ذوالقعدہ 656ھ،مطابق 18/نومبر1258ءبروزپیر،63 سال کی عمر میں ہوا۔آپ کامزار وادیِ "حمیثرا" مصرمیں مرجعِ خلائق ہے۔
والسلام (محمد سعید الرحمن ایڈوکیٹ)

Comments
Post a Comment