حضرت شاہ نیاز بے نیاز سید یناز احمد علوی، قادری، چشتی ،سہروردی، نقشبندی قدس سرہ العزیز۔
تذکرہ حضرت شاہ نیاز بے نیاز سید یناز احمد علوی، قادری، چشتی ،سہروردی، نقشبندی قدس سرہ العزیز۔
ۤ===========================================
مرتب کردہ: محمد سعید الرحمن ایڈوکیٹ
آپ کا ا سما مبارک راز احمد المعروف بہ نیاز احمد ہے۔ آپ کو حضرت نیاز بے نیاز ؒ بھی کہا جاتا ہے۔ بے نیاز صرف اللہ کی ذات ہے جب کہ نیاز کے معنی حاجت کے ہیں اور اس کا مادہ حوج ہے اور حوج کے معنیٰ محتاج ، نیاز مند کےہیں۔آپ کے اس نام کے لفظی معنیٰ ہوئے محتاج اور نیاز مند خدائے بے نیاز کا۔ حضرت شاہ نیاز احمد قدس سرہ العزیز چھ (6) جمادی الثانی بعد نماز فجر جمعہ1155 ہجری نبوی بمقام سرہند میں پیدا ہوئے۔ آپ کاسلسلہ نسب علوی سید ہے اور والدہ ماجدہ کی طرف سے بنی فاطمہ سید رضوی ہے۔آپ کے اجداد شاہان بخارا رہے ہیں۔ آپ کے اجداد میں حضرت شاہ آیت اللہ علوی ترک سلطنت کرکے ملتان تشریف لے آئے تھے اور اُن کے ایک پوتے حضرت شاہ عظمت اللہ علوی سرہند میں آکر آباد ہوگے پھر وہاں سے حضرت شاہ نیاز احمد ؒ کے والد ماجد حضرت شاہ محمد رحمت اللہ علوی ؒ اپنے خاندان کے ساتھ دہلی تشریف لے آئے جہاں آپ قاضی القضاہ کے عہدے پر فائز رہے ۔آپ کے والد محترم کی سرہند سے وقتِ ہجرت حضرت شاہ نیاز احمد ؒ کی عمر مبارک چار سال کچھ ماہ تھی ۔ ا ٓپ کے والد محترم سلسلہ نقشبدیہ (قدیمہ) کے صاحب ارشاد بزرگ گزرے ہیں اور سلسلہ چشتیہ صابریہ کی خلافت بھی آپ کو حاصل ہوئی تھی۔ صاحب ارشاد وہ اولیاء کامل کہلاتے ہیں جو واصل بحق ہوتے ہیں اور حق تعا لیٰ ان کے وسلیے سے مخلوق پر اپنی رحمت نازل فرماتا ہے اور خلق کی حاجت روائی کرتا ہے یعنی یہ اللہ کی جناب میں مخلوق کے لیے وسلیہ ہوتے ہے۔ یہ حضرات انبیاء علیہ السلام کےحقیقی نائب ہوتے ہیں لوگوں کے قلبوں میں انوار و برکات ان کی وجہ سے آتے ہیں.
حضرت شاہ نیاز احمد ؒ کی والدہ محترمہ جو رابعہ العصر وعفیفہ دہر کہلائی تھی جنہیں بی بی غریب نواز کے لقب سے پکارا جاتا تھا، آپ حضرت مولانا سیّد سعید الدین ؒ کی صاحب زادی تھیں، جو سلسلہ چشتیہ میں حضرت شیخ کلیم اﷲ شاہ جہاں آبادی کے خلیفہ تھے۔ آپ ؒ فر ماتی ہیں کہ بعد ولادت آپؒ نے عالم رویا میں مشاہدہ کیا تھا کہ آپ کے اس فرزند کو حضرت علی کرم اللہ وجہہ اور جناب سیدۃ النسا سلام علہہا نے اپنا بچہ فرما کر آغوش رحمت میں لے لیا تھا ۔ آپ کی والدہ ماجدہ قادری سلسلہ میں حضرت شیخ محی الدین دیا سامی قدس سرہ العزیز سے بیعت تھیں اور آپ کے شیخ نے آپ کی والدہ محترمہ سے دومرتبہ بیعت لی جسکی وجہ آپ کے شیخ نے بیان فرمائی تھی کہ تمھارے بطن سے ایک بزرگ صفت فرزند پیدا ہو گا اور اس وقت میں نہیں ہونگا ، لہذا میں اس کی روح کو بھی بیعت کرکے داخل سلسلہ قادریہ کررہا ہوں۔ آپ کی والدہ بچپن سے ہی آپؒ پر توجہ القائی فرمایا کرتی تھیں اور باطنی طور پر اپنے شیخ حضرت شیخ محی الدین دیا سامی قدس سرہ العزیز کی روح پرقنوت کےکے وسیلے سے فیضان قادریہ سے مستفیض کرتی رہتی تھیں ۔
آپ کے خاندان کا یہ معمول رہا ہے کہ جب بچہ مدرسہ جانے کے قابل ہوجاتا ہے تو شیخ ِخاندان یا خاندان کا جوبھی بزرگ ہو وہ اس بچے کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھ دیتاہے۔ جب حضرت نیازبے نیازؒ مدرسہ جانے کے قابل ہوئے تو خاندانی رواج کے مطابق آپ کے محترم نانا نے اپنا دست مبارک آپ کے ہاتھ پر رکھ دیا تھاْ۔ آپ کے نانا حضرت مولانا سعید الدین رضوی رحمتہ اللہ علیہ کوسلسلہ چشتہ میں حضر ت کلیم اللہ جہان آبادی قدس سرہ العزیز سےخلافت حاصل تھی اور آپ کا شمار بھی اپنے دور کے جید کامل و صاحب ارشاد بزرگوں میں ہوتا تھا۔ آپ کی والد ہ ماجد ہ نے آپ کو دہلی میں ظاہری و باطنی علوم کی تعلیم کے لیے حضرت مولانا شاہ فخر الدین فخرجہاں دہلوی رحمتہ اللہ علیہ کے سپرد فرما دیا تھا جو خلیفہ و فرزند حضرت کلیم اللہ جہاں آبادی کے تھے اور وہ اُن دنوں اپنے والد گرامی کے حکم کے موجب اپنے پیر بھائی حضرت سعید الدین رضوی ؒ سے بطریق سلوک نعمتِ ہائے سلسلہ حاصل کرنے میں مشغول تھے۔ لہذا حضرت مولانا شاہ فخر الدین فخرجہاں دہلوی رحمتہ اللہ علیہ آپ کے نانا حضرت سعید الدین رضوی ؒ کا بہت احترام کرتے تھے اورسوئے ادب حضرت نیا ز بے نیاز ؒ کو اپنے دست مبارک پر بیعت کرنے کی بجائے اپنا دامن پکڑا کا بیعت طالبی سے سرفراز فرمایا اور آپ کے نانا کے دست مبارک کووقت آغاز ِتعلیم پر آپ کےہاتھ پر رکھنے کو سلسلہ چشتیہ میں بیعت کرنے ہی سے تعبیر کیا اور اس کے بعد ظاہری و باطنی تعلیم دینا شروع کی۔ اس طرح گویا آپ کو سلسلہ چستیہ میں بیعت کا شرف حضرت کلیم اللہ جہان آبادی کے دونوں خلفاء یعنی حضرت سعید الدین رضوی ؒ اور حضرت مولانا شاہ فخر الدین فخرجہاں دہلوی ؒسے حاصل ہوا۔ حضرت مولانا فخر الدین فخر جہاں دہلوی ؒ نےسوئے ادب آپ کے نانا حضرت سعید الدین رضوی ؒ کبھی حضرت نیاز بے نیاز ؒ کو اپنا مرید نہیں سمجھا اور نہ کبھی آپ کا نام لیا ہمیشہ آپ کو میاں کہتے تھے اور علم باطنی کےایسے اہم اسرار تعلیم فرماتے رہے کیونکہ آپ کا معاملہ خاص الخاص تھا۔ اس کے علاوہ تحصیل علوم ظاہری و باطنی کے لیے جیسی فراست اور ذکاوت و ذہانت حضرت نیاز بے نیاز ؒ میں تھی مولانا فخر الدینؒ کے کسی شاگرد و خلیفہ یا مریدین میں نہیں تھی۔ آپ اپنی ذہانت و خداد صلاحیتوں کی بنا ء پر سترہ (17) سال کی عمر میں فارغ تحصیل ہوگے۔
علماء شہر آپ کی علمی قابلیت سے بےحد متاثر تھے۔ آپ کی رسم دستار بندی میں عمائد ین شہر اور علماء الرام کی ایک بڑی تعداد شریک ہوئی۔ حضرت مولانا شاہ فخر الدین فخرجہاں دہلوی نے آپ کو دستار فضیلت کے ساتھ ہی خرقہ خلافت بھی مرحمت فرمایا۔ بعد رسم ِدستار بندی آپ اپنے استاد محترم کے اس مدرسے فخریہ میں جہاں دورر دور سے لوگ آکراپنی علمی پیاس بجھاتے تھے اور جو اس دور میں کالج کا درجہ رکھتا تھا بحیثیت استاد شامل کرلیے گے اور آپؒ بریلی ہجرت فرمانے تک اس مدرسے میں تدریس کے فرائض بحسن خوبی انجام دیتےرہے اور آپ اس مدرسے کے پرنسپل بھی مقرر ہوئے۔ دستار فضیلت و خرقہ خلافت کے اجماع سے آپ کی ذات گرامی سے علم باطنی و علم روحانی دونوں نوعیت کے چشمے ہائے فیض جاری ہوئے۔ ایک طرف علوم عقلی کے متلاشی معقولات ومنقولات کے جواہرات سے اپنے دامن کو پُر کرنے لگے تو دوسری طرف تشنہ گان ِ حقیقت اس بحرِ معرفت سے اپنی پیاس بجھانے لگے۔ حضرت نیاز بے نیاز ؒ صحیح معنوں میں اپنے استاد و پیر ومرشد کے دست راز اور جانشین ثابت ہوئے اورہر دو حیثیت سےآپ نے دہلی اور اطراف دہلی میں دور دور تک بہت جلد شہرت حاصل کرلی ۔ مدرسہ فخریہ میں آپ کی محنت و قابلیت کی تعریفین ہر شخص کی زبان پر تھیں۔ آپ کا شمار علوم منقول و معقول و فروع و اصول ، علم حدیث وتفسیر وفقہ کے جید استادوں میں ہونے لگا تھااور آپ کو ان علوم میں منتہیٰ و باکمال استاد ومحقق تسلیم کیا جاتا تھا۔ تذکرہ نویس لکھتے ہیں کہ حضرت مولانا شاہ فخر الدین فخرجہاں دہلوی کےتمام خلفاء آسمان ولایت کے شمس و قمر تھے لیکن حضرت نیاز بے نیاز ؒ جیسی شخصیت کوئی نظر نہیں آئی تھی جو علوم ظاہر وباطن میں بیک وقت یگانہ اور رموز صوری و معنوی میں یکتائے زمانہ ہو۔
حضرت شاہ نیاز بے نیاز ؒ عالمِ دہر اور صاحب ارشاد ولی کامل ہونے کے علاوہ چاروں زبا ن یعنی عربی ، فارسی ، اردو و ہندی کےایک عظیم المرتب اور قادر الکلام صوفی شاعر بھی تھے۔ آپ کا کلام کئی بار مختلف اشخاص اور اداروں کی جانب سے ہندوستان اور پاکستان میں طبع ہوچکا ہے اور آج بھی اہل ذوق آپ کے کلام سے استفادہ حاصل کرتے رہتےہیں۔ آپ توحید وجودی کے قائل تھے اور شرابِ عشق حقیقی میں ہر وقت مستقرق وبے خود رہتے تھے۔آپ نے جو کچھ لکھا دل کی گہرائیوں میں ڈوب کر لکھا لہذا آپ کا پورا کلام آمد ہے اور اس میں آورد کا نشان تک نہیں ملتا ۔ فن شاعری میں مومن خان مومن اور مصحفی کو بھی آپ کی شاگردی کا فخر حاصل ہوا ہے۔ حضرت شاہ نیاز بے نیازؒ کو فن سپہ گری وشہسواری سے بھی خاصا شقف تھا کیونکہ اُس زمانے میں ملکی حالات اس امر کے متقاضی تھے کہ بچہ بچہ ہتھیار بند اور فن شہسواری میں طاق ہو۔ آپ وسیع المطالعہ تھے تعلیم و تربیت سے فرضت ملتی تو کتابوں کے مطالعے میں لگ جاتے تھے، اُس سے فرضت ملتی تو تصنیف و تالیف کا مشغلہ شروع ہوجاتا۔آپ کی تصانیف کی ایک طویل فہرست ہے۔آپ کو خوش نویسی میں بھی یدطولیٰ حاصل تھا اور آپ کے ہاتھ کے لکھے ہوئے کئی کتب، وصلیں، خاندانی وطائف اور رسالے آج بھی موجود ہیں جن کا شمار خطاطی کے اعلیٰ نمونوں میں ہوتا ہے۔ ایک روایت یہ بھی ہے جس زمانے میں آپ کا دہلی میں قیام تھا آپ نے علم جفعر ونجوم کی تحصیل بھی فرمائی تھی۔
آپ اپنی دستاری بندی کے بعد بھی تقریبا تیس سال کی عمر تک دہلی میں قیام پذیر رہے اس ہی اثنا میں آپ کی پہلے شادی عمدۃ ا لاولاد وجانشین غوث اعظم ؒ حضرت سید عبداللہ بغدادی قادری ؒ کی صاحبزادی سے انجام پائی جو شادی کے کچھ عرصے بعد ہی لا ولدوفات پا گئیں تھیں ۔ آپ کوسلسلہ قادریہ میں بیعت کی سعادت اپنی پیدائش سے قبل عالم مثال میں ہی بتواسط اپنی والدہ محترم حضرت شیخ محی الدین دیا سامی قدس سرہ العزیز سے حاصل ہوئی تھی مگر یہ بیعت ظاہری نہیں تھی۔ لہذا حضور غوث پاک نے آپ کو رویا میں حضرت سید عبداللہ بغدادی قادری ؒ جو کہ حضور غوث پاکؒ کے حکم پر بغداد سےدہلی تشریف لائے تھے کے دست مبارک پر قادری سلسلہ میں ظاہری بیعت کی سعادت حاصل کرنے کا فرمایا۔ حضرت سید عبداللہ بغدادی قادری ؒ نے آپ کو ہر قسم کی تعلیم وتلقین کے علاوہ اشغال واذکار قادریہ وعربی میں خلافت نامہ و اپنی دستار ودیگر تبرکات مع خرقہ شریف حضور غوث اعظم کے مرحمت فرمایا۔ مذکورہ تبرکات اور مجمع عام میں دستار مبارک اور خرقہ شریف کا حضور غوث اعظم کے حکم سے حضرت شاہ نیاز بے نیاز ؒ کو عطا کیا جانا اور آپ کے خلافت نامے میں جانشینی کا ذکر موجود ہونا اس امر کی دلالت ہے کہ برصغیر میں حضور غوث پاک ؒ کے صحیح سجادہ نشین آپ ہی ہیں۔
حضرت مولانا شاہ فخر الدین فخرجہاں دہلوی نے سلسلہ چشتیہ کے وسیع نظام ِ جو ملک گیر تھا چلانے اور بغرض تبلیغ و تربیت روحانی کے حضرت نیاز احمد بے نیاز ؒ کو اپنی مسند مبارک، تکیہ جن میں کھجور کے ریشے بھرے ہوئے تھے، تسبیح و عصا مرحمت کیا اور اپنے سر مبارک سے دستار اُتار آپ کے سر مبارک پر رکھی اور انہیں اپنا سجادہ نشین کرکے بریلی میں مامور فرمایا۔ آپ کی یہ جانشینی درحقیقت سلطان الہند حضرت معین الدین چشتی ؒ کی جانشینی تھی کیونکہ حضرت مولانا شاہ فخر الدین فخرجہاں دہلوی ؒ سلطان الہند کے صحیح جانشین تھے۔ جب آپ کے شیخ نے آپ کو بانس بریلی میں مامور فرمایا تو آپ کے والد بزرگوار جو کہ دہلی میں قاضی القضات کے عہدے پر متمکن تھے شفقت پدری سے مجبور ہوکر اوراپنے منصب قضا سے مستعفی ہوکر اپنے اہل وعیال کے ساتھ بریلی تشریف لے آئے۔
حضرت نیاز بے نیاز ؒ کو سلسلہ قادریہ اور چشتیہ (نظامیہ) دونوں کی صحیح و مستند جانشینی مع مسانید و تبرکات حاصل تھی۔ آپ ان دوسلسلوں کے علاوہ دیگر سلاسل کے بھی صاحب ارشاد بزرگ ہیں ۔ آپ کو سلسلہ چشتیہ (صابریہ ) اور خاندان نقشبندیہ کا فیض اپنے والد گرامی حضرت شاہ محمد رحمت اللہ قدس سرہ سے حاصل ہوا۔ جب کہ سہروریہ کا فیض آپ کوبواسط حضرت مولانا فخر الدین دہلوی حاصل ہوا تھا۔ خاندان سہروریہ حضرت شیخ ضیا الدین ابو النجیب عبدالقاہر سہروردی ؒ سے شروع ہوتا ہے اور اس سلسلے میں آپ سے لیکر حضور غوث پاک ؒ تک اکیس واسطے ہیں۔حضرت نیاز بے نیاز ؒ کے سلسلہ عالیہ میں قادریہ، چشتیہ ، سہروردیہ اور نقشبندیہ کا حسین امتزاج ہے تاہم آپ پر چشتیہ کا غلبہ تھا۔آپ اپنے پیران عظام کی طرح مثالی اہل سماع تھے اور جملہ لوازم شریعت اور شرائط طریقت و معرفت کے ساتھ سماع سنتے تھے۔آپ نے بھی اپنے شیخ طریقت کے نقش قدم پر چلتے ہوئے بریلی سے یہ روحانی نظام چلایا اور مکہ معظمہ، بلخ، بخارا ، سمرقند, قوقند، کابل، بدخشان، وزیرخیل، دیوغاب، کشمیر اور پکھلی میں اپنے خلفاء متعین فرمائے۔آپ کے خلفا میں کوئی تاج الاولیا ہواتو کوئی سراج السالکین اور کوئی امام السالکین ہوا تو کوئی خوان علوم۔
مشہور مثل ہے موت العالم موت العالم۔ حضرت نیاز بے نیاز ؒ نے اس عالم ناسوت سے جمعہ 6 جمادی الثانی 1250ھ کو بعد نماز ظہر بعمر 95 سال پردہ فرمایا۔ وصال سے قبل آپ پر محویت اور استغراق کا اس قدر علبہ تھا کہ دن رات میں کسی بھی وقت ہوش نہ رہتا تھا۔ باوجود اس کے خلفاء ومریدین کو یہ تاکید تھی کہ جس طرح ہو ہم سے نماز پڑھوالیا کرو۔ نماز کے وقت خدام ہوشیار کرتے بمشکل تمام اُس عالم سے اِس عالم ناسوت کی طرف نزول فرماتے تھے جب نماز ختم ہوتی تو دوبارہ استغراق و محویت کی کفیت طاری ہوجاتی۔ وقت وصال آپ نے اپنے صاحبزادے اور جانشین حضرت شاہ نظام الدین حسین ؒ کو اپنے سینے سے لگایا اور نعمت باطنی اور اسرار مخفیہ جو ودیعت تھے آپ کے سینے میں بطور القا کے تفویض فرمائے۔ اس فیضان سے آپ کے صاحبزادے اور جانشین حضرت شاہ نظام الدین حسین ؒ بے ہوش ہوگے اور اسی حالت میں حضرت نیاز بے نیاز ؒ کی روح پُر قنوت قالب عنصری سے مفارقت کرکے اپنے مرکز اصلی کو پہنچی إنا لله وإنا إليه راجعون ۔
آ پ کا مزار اقدس بانس بریلی میں زیارت گاہ خلق ہے۔ آپ کا سالانہ عرس ہرسال بریلی شریف میں یکم تا دہم جمادی الثانی نہایت تزک و احتشام سے اور ساتھ ہی برصغیر پاک و ہند کے بڑے بڑے شہروں میں منعقد ہوتا ہے۔ کراچی میں بھی متعدد مقامات پر آپ کا عرس 5 اور 6 جمادی الثانی کو منعقد ہوتا ہے۔ والسلام ( محمد سعید الرحمن)
Comments
Post a Comment