حضرت سید نصیر الدین کمال شاہ رحمتہ اللہ علیہ

 

حضرت سید نصیر الدین کمال شاہ رحمتہ اللہ علیہ سلسلہ قادریہ، چشتیہ، سہروردیہ کی فیض رساں روحانی شخصیت =====================================

مرتبہ کردہ : محمد سعید الرحمن، ایڈوکیٹ


حضرت سید نصیر الدین کمال شاہ رحمتہ اللہ علیہ کا شمار دور حاضر کے مقتدر اور صاحبِ نسبت و تصرف پیرِ طریقت میں ہوتا ہے،آپ نجیب الطریفین سید السادت تھے اور آپ کا سلسلہ نسب حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے جا ملتا ہے ۔ آپ کو بچپن سے ہی سلسلے چشتیہ کی روحانی نسبت اپنے والد گرامی حضرت سید کالو میاں کمال شاہ ؒ سے حاصل ہوئی تھی اور قادریہ سلسلہ کا فیض گجرات کے نامور صوفی بزرگ حضرت بشیر الدین مولا رحمتہ اللہ علیہ سے حاصل ہوا تھا۔ ہندوستان میں تصوف کی تاریخ بہت پرانی ہے، یہاں چشتیہ ،قادریہ ، سہروردیہ ، نقشبندیہ ، شطاریہ، رفاعیہ اور دیگرکئی سلسلے پھیلے تھے اور ان سب کی مختلف شاخوں نے صوفیا کی تعلیمات کے اثرات کو قصبات اور دیہات تک پہنچا دیا تھا جس میں صوبہ گجرات اور اس کے اضلاع بھی شامل ہیں اور یہ صوبہ بھی ہر دور میں صوفیاء اکرام کا مسکن رہا ہے ۔ اس صوبہ میں بہت سے اولیاء ایسے بھی گزرےہیں جن کے تذکرے نہیں لکھے جاسکےمگر انہیں اپنے ادوار میں خاصی شہرت حاصل رہی تھی جن میں آپ کے جد امجد اور دیگر آپ کے خاندان کے بزرگ بھی شامل ہیں جو اپنے دور کے ولی کامل و روحانی پیشوا رہے ہیں۔
حضرت سید نصیرشاہ ؒکےحالات زندگی آپ کے خلیفہ مجاز و ممتاز عالم دین و شاعر حضرت مقبول احمد شمشی رحمتہ اللہ علیہ نے آپ کے وصال فرماجانے کے بعدمرتب کیےہیں جنہیں ایک عرصہ آپ کی صحبت میں گزار نے اور اکتساب فیض حاصل کرنے کا شرف حاصل ہوا تھا ۔ مرتب کردہ احوال کے مطابق آپ کی پیدائش بھارت کے صوبہ گجرات کے شہر سورت علاقہ راندیر میں ہوئی اور آپ کا یوم پیدائش 16 جمادی الاول سن 1341ہجری ہے۔ آپ کا نام سلطان المشائخ حضرت نظام الدین اولیاء رحمتہ اللہ علیہ کے جانشین حضرت سید نصیر الدین چراغِ دہلی کی نسبت سے تجویز کیا گیا تھا جو اس خاندان کی سلسلے چشتیہ سے محبت و عقیدت کا مظہر ہے۔ آپ پیدائشی ولی تھے،بچپن میں ہی آثارِ ولایت ظاہر ہونا شروع ہو گئے تھے اور کرامات اورخرق عادات کا ظہور ہوتا رہتا تھا ، اسی نسبت سے آپ کی تربیت پر خاص توجہ دی گئی تھی اور آپ کے والد ِگرامی نے بڑی شفقت سے آپ کی پرورش فرمائی تھی۔ جب آپ نے ہوش سنبھالا تو رواج کے مطابق آپ کی تعلیم کا آغاز ہوا اور جلد ہی آپ نے مروجہ عُلوم و فنون کی تکمیل فرما کر اپنے والد گرامی کی طرح ایک درویش منش انسان بنے اور ہدایت و خدمت خلق اللہ کو اپنا شیوہ ِزندگی بنایا۔
آپ عہد طفلی سے ہی شہباز ولایت تھے، تصوف آپ کی گھٹی میں پڑا تھا ،اس لیے اس کے بہت گہرے اثرات آپ کی پوری زندگی پر پڑے،عشقِ الٰہی اور محبت رسول ﷺ آپ کا طرئہ امتیاز تھا، آپ نرمِ گفتگو کا مظہر تھے،ہمدردی،رواداری اور خیر خواہیِٔ خلق کے خوگر تھے،فراخدلی،خودداری،مردم شناسی، داد رسی اور فیض رسانی آپ کا خاصہ تھا ۔ آپ میں ایک یہ بڑی صفت تھی کہ اگر کسی نے اپنا کوئی راز یا کمزوری آپ سے عرض کی یا آپ کسی کے عیب یا برائی سے واقف ہوگے تو اس کا تذکرہ کسی بھی پہلو سے کسی سے بھی نہیں کرتے تھے۔ آپ سے صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ دوسرے مذہب کے لوگ بھی بے حد عقیدت و محبت رکھتے تھے۔
عہد نوجوانی میں ہی آپ کا اللہ تعالیٰ سے ایک خاص تعلق قائم ہوگیا تھا اوراس کے نتیجے میں آپ کو اللہ تعالیٰ کا وہ قرب حاصل ہوا جو خاص الخاص کو حاصل ہوتا ہے،جس کے آثار آپ کے احوال و کردار ،عادات و اطوار اور حرکات و سکنات سے بھی ظاہر ہوتے رہتےتھے اور جس کی بھی آپ کے چہرے مبارک کی چمک پر نظر پڑتی تھی تو دیکھنے والوں کا دل گواہی دیتا تھا کہ بے شک آپ کامل عبودیت کے حامل اور اللہ کے مقرب ہیں۔ اس قربِ خاص اور نسبت کی وجہ سےآپ کی ذات اقدس آغاز جوانی سے ہی خلق خدا کے لیے فیض رساں بن گئی تھی، آپ جس پر بھی آپ اپنی توجہ فرماتے تھے اس کے حالات و معاملات میں نمایاں تبدیلی آجاتی تھی ۔امام ربانی حضرت مجدد الف ثانی رحمتہ اللہ فرماتے ہیں اللہ کے ولی قلبی امراض کے طبیب ہیں، ان کا کلام دعا اور ان کی نظر میں شفا ہوتی ہے۔
اللہ تعالیٰ اپنے ہر ولی کو کسی نہ کسی وصف سے سرفراز فرماتا ہے اور ان کے ظاہر وباطن کو پاک کرکے انہیں نور بصیرت عطا فرماتا ہے۔ حضرت سید نصیر شاہ ؒ کو اللہ تعالیٰ نے حدس و فراست کی نعمت عطا فرمائی تھی۔ روحانی ترقی و مدارج سلوک طے کرنے کے لیے اوئل جوانی سے ہی آپ کا معمول رہا کہ رات کا بیشتر وقت قبرستانوں میں تفکر (مراقبہ ) میں گزرتے تھے۔ ان مراقبات میں آپ مادی دنیا سے اپنی توجہ ہٹا کر عالمِ ارواح پر مرکوز کرتے ہیں جسے اصطلاحات تصوف میں اعراف کہتے ہیں۔کشف و الہام کی نعمت جو کہ علم کا درجہ رکھتی ہے صرف اللہ کے ان ہی مقرب بندوں کو حاصل ہوتا ہے جو کہ اللہ تعالی کی شریعت پر چلتے اور اس کی عبادت کرتے ہیں۔ منقول ہے کہ حضرت سید نصیر شاہ ؒ پر بھی کم عمری میں کشف کا دروازہ ایک غیبی واردات سے کھل گیا تھا جب آپ اپنے جد امجد کی قبر مبارک پر مراقب تھے کہ اچانک قبر شق ہوئی اور آپ کے جد امجد قبر مبارک سے باہر نکل کر آپ کی طرف دیکھ کر مسکرائے اور آپ پر اپنی روحانی توجہ فرمائی۔ اس واقعےکے بعد سے آپ پر روحانی کشف و حجابات کھلنا شروع ہوگے تھے ۔
روایت ہے کہ جن دنوں آپ کا قیام دوران ملازمت ہندوستان کے شہر گودھرا میں تھا، دریا کے کنارے ایک مجذوب بسبب غلبہِ جذب برہنہ رہا کرتا تھا ،بعض اوقات اس مجذوب سے خوارق وکرامت کا ظہور بھی ہوتا تھا اور وہ مجذوب بڑے عجیب وغریب حالات و احوال کا مالک تھے، شہر کے لوگ اس کے معتقد تھے اور خلق خدا کا ہجوم انہیں ہر وقت گھیرا رہتا تھا ۔ آپ بھی اس مجذوب کا شہرہ سن کر ایک دن اس سے ملاقات کے لیے اپنے معتقدین کے ساتھ تشریف لے گے، اس مجذوب نے جیسے ہی آپ کو آتے ہوئےدیکھا اس کی جذب کی حالت ایکدم تبدیل ہوگی اور اس نے اپنے برہنہ جسم کو جس چٹائی پر وہ بیٹھ ہوا تھا سے لپٹ لیا اور جب تک آپ وہاں رہے اس مجذوب نے اپنی ستر پوشی کو برقرار رکھا۔آپ جب تک اس مجذوب کے سامنے رہے اس کی جذب کی حالت منقطع رہی اور وہ مجذوب بہت ہی احترام و تعظیم سے آپ کی طرف دیکھتا رہا۔
برائےقلب و روح کی بالیدگی اور تکریم و تعظیم بزرگان دین کے مزرات کی زیارت او ر ان کے اعروس مقدسہ میں شرکت کرنا آپ کا معمول تھا۔ آپ نے ہند وپاک کے بے شمار بزرگان دین کے مزارات پر حاضری دی تھی اور فیوض برکات سے مستفید ہوئے۔ اس ضمن میں صوفیاٗء متاخرین کی طرح آپ کا بھی یہی عقیدہ تھا کہ بزرگ پیشواؤں کے مزارات کی زیارت اور انکے وسلیے سے خدا کی بارگاہ میں شفاعت وحاجت روائی کی درخواست غیر معمولی روحانی اثر رکھتی ہے، اور بزرگوں کی ملکوتی بارگاہوں کی زیارت سے قلب کی اصلاح ہوتی ہے اور ان بارگاہوں کی حاضری بھی صلاح و فلاح کی اعلی منازل پر فائز کرتی ہیں۔
روایت ہے کہ ایک دفعہ آپ اپنی روحانی بالیدگی کے لیے المعروف بابا زندہ پیر رحمتہ اللہ جن کا مزار اقدس مہاراشٹر میں واقع ہےکے سالانہ عرس میں شرکت اور حاضری کے لیے تشریف لے گئے تھے اور وہیں آپ کی ملاقات حضرت سیدنا کملی شاہ بابا رحمتہ اللہ علیہ سے ہوئی اور یوں محسوس ہوا کہ جیسےدونوں ایک دوسرے کے متلاشی تھے ۔ اس پہلی ملاقات میں ہی حضرت کملی شاہ بابا ؒ نے آپ پر اپنی کمال توجہ فرمائی اور با قاعدہ طور پر اپنے دست حق پر طالب فرما کر فیوض وبرکات سے لبریز فرمایا ۔حضرت کملی شاہ بابا کو سلسلہ چشتیہ اور قادریہ میں حضرت قاضی گڈری شاہ بابا (چلہ خواجہ غریب نوازؒ اجمیر شریف) اور سلسلہ سہروریہ میں حضرت مخدوم سماء الدین سہروردی رحمتہ اللہ (مہر ولی، نئی دہلی) سے توسل و خلافت حاصل تھی۔
تاریخ تصوف کے مطابق حضرت سیدنا کملی شاہ بابا رحمتہ اللہ ایک خلوت نشین درویش تھے اور ایک طویل زمانہ جنگلوں میں رہ کر عبادت گزاری کرتے رہے، برسوں تک صرف جنگلی پھل اور برگ آپ کی غذا رہی ۔ تکمیل سلوک کے بعد آپ نے رشد وہدایت کے لیے ہندوستان کے شہرکھاپڑ کو اپنا مستقر بنالیا تھا، کثیر تعداد میں مسلمانوں نے آپ کے دست حق پر شرف بیعت کی سعادت حاصل کی تھی جب کہ آپ کے عقیدت مندوں میں ہندوں کا ایک وسیع حلقہ بھی شامل تھا۔ حضرت سید نصیرشاہ ؒ نے ایک عرصہ آپ کی صحبت میں گزار اور خوب اکتساب فیض حاصل کیااوراپنے پیرومرشد کی صحبت صالح کے باعث معرفت الٰہی اور علم لدنی سے مالا مال ہوئے اور بڑی تیزی کے ساتھ اپنے مربی ومرشد سے تزکیہ و سلوک کی منازل طے کرتے ہوئے سلسلہ قادریہ ، سہروردیہ، چشتیہ کی خلافت سے سرفراز ہوئے۔حضرت سیدنا کملی شاہ بابا رحمتہ اللہ کا مزار اقدس بی کھاپڑ میں مرجع خلائق ہے ۔
قیام پاکستان کے بعد حضرت سید نصیرشاہ ؒنے اپنے خاندان کے ساتھ کراچی ہجرت فرمائی اور ایک مقامی فرم میں ملازمت کی۔ ابتدائی ایام میں دریا آباد لیاری میں سکونت پذیر رہے اور کچھ عرصے بعد ہی لیاری سےدھوراجی ، بہادر آباد منتقل ہوگے ۔ کراچی میں بھی آپ نےرشد وہدایت کےسلسلے کو جاری فرمایا اور اپنے پیر و مرشد کے نام سےموسوم ایک خانقاہ قائم کی ۔ آپ کا شمار بھی کراچی کے معروف پیر طریقت میں ہونے لگا اور ساتھ ہی کراچی کے علمی وروحانی حلقوں میں بھی آپ کو ایک نمایاں مقام حاصل ہوا ۔ آپ کی کراچی آمد اور قیام کی خبر دور دور تک پھیل گئی تھی، دور دور سے لوگ پہنچ کر آپ کے فیوض سے مستفیض ہونے لگے۔ آپ کی خانقاہ میں امیروغریب اورمختلف شعبہ ہائے زندگی کے لوگ حاضری دیتے اورفیضیاب ہوتے تھے، ہمہ وقت عقیدت مندوں کا ایک ہجوم آپ کے اردگرد جمع رہتا تھا ۔آپ کی خانقاہ رشد وہدایت کے ساتھ ساتھ، خدمت خلق اور حاجت روائی کا سرچشمہ بنی ہوئی تھی جو بھی شخص حاجت لیکر آتا ضرور پوری ہوتی، جب تک ضرروت مند کی حتی الوسع مدد نہیں فرماتے آپ کو سکون نہیں ملتا تھا۔
آپ نے خود کو محبتِ مرشد میں فنا کرکےاپنی صفات کو شیخ کی صفات سے بدل ڈالا تھا اور اپنی ہر رضا کو رضائے مرشد میں گم کردیا تھا اور آپ کا ظاہر و باطن اپنے مرشد کے سراپا میں ڈھالا ہوا تھا۔ محبت شیخ سے شرشار ہوکرآپ ہر سال 21 محرم الر ام کو اپنے شیخ طریقت کا عرس بڑی شان و شوکت سے مناتے تھے جس میں آپ کے عقیدت مند، دیگر سلاسل کے مشائخ اور مختلف مکاتب فکر سے متعلق شخصیات اور عمائدین علاقہ بھرپور عقیدت کیساتھ شریک ہوکر فیوض و برکات حاصل کرتے تھے ۔ عرس کی تیاریاں ایک ماہ قبل ہی شروع ہوجاتیں تھی، ان دنوں آپ پر ایک کیف سا طاری رہتا تھا اور آپ خود کودریائے محبت میں غوط زن پاتے تھے ۔
آپ کی عائلی زندگی بھی بہت مثالی تھی۔ آپ نے آپ نے اپنی والاد کی تعلیم وتربیت میں خاص دلچسپی لی اور ان کی اعلیٰ تربیت فرمائی اور انہیں مہذب و معتبر بنایا ۔آپ کی پہلی زوجہ کے باطن سے تین بیٹیاں تولد ہوئیں جو بقید حیات اور صاحب اولاد ہیں۔ آپ نے اپنی پہلی زوجہ کی وفات کے بعد عقد ثانی فرمایا ، آپ کی اس زوجہ محترمہ کے باطن سے چار بیٹے اور ایک بیٹی تولد ہوئی ۔ تمام فرزندگان اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں۔ آپ کے فرزندگان میں سے آپ کے سب سے بڑے صاحبزادے سید رزاق علی شاہ کا حال ہی میں بعمر ۵۹ سال سن 2017 میں وصال ہوچکا ہے جو آپ کے سجادہ نشین بھی تھے۔ باقی فرزندگان کے اسماء گرامی بلتریب سید ولایت علی شاہ ، سید منیر علی شاہ اور سید گوہر علی شاہ ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت سے نوازتے ہوئے آپ کو حج بیت اللہ شریف اور اپنے حبیب پاک صلی اللہ علیہ و آل وسلم کے روضے مبارک کی زیارت کا شرف بھی عطا فرمایا اس سفرِ حج میں آپ کے ساتھ آپ کی اہلیہ اور کچھ عقیدت مند بھی آپ کے ہمراہ تھے۔ آپ کے یہ مصاحبین فرماتے ہیں کہ دورانِ طواف، آپ مناسک حج کو ادا کرتے ہوئے بڑی خوشی کا اظہار کررہے تھے، آپ کے چہرہ مبارک سے راحت و سُرور چھلکتا تھا - ادائیگی مناسک حج کے بعد آپ اپنے عقیدت مندوں کے ساتھ زیارت روضہ رسول ﷺ کی باادب حاضری کے لیے حرمَین شریفَین تشریف لے گے- دوران قیام مدینہ طیبہ آپ کو سید الانبیاء والمرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ سے خاص نسبت حاصل ہوئی، جب آپ روضہ رسول پر حاضری دیتے تو ایسے لگتا کہ ظاہری طور پر حاضری کے لیے کھڑے ہیں تو باطنی طور پر بھی حاضری نصیب ہورہی ہے-
ہر زمانے میں اللہ والوں سے کَرامات کا ظہور ہوتا رہا ہے۔ زمانَۂ نبوّت سے آج تک علماء کے درمیان کبھی بھی اِس مسئلے میں اِختِلاف نہیں ہوا بلکہ سب ہی کا عقیدہ ہے کہ اولیاء اکرام کی کرامتیں حق ہیں۔ مگر مردان حق کا خاصہ ہے کہ وہ اپنی ان کرامات کو اپنا کمال نہیں سمجھتے بلکہ ان کا کمال تو راہ حق میں استقامت اور کامل اتباع سنت ہے۔ الغرض آپ سے بھی بے شمار کرامات وخرق عادات کا ظہور ہوا تھا اور یہ سلسلہ آپ کی زندگی تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ آپ کے تصرفات و کرامات کا سلسلہ وصال کے بعد بھی جاری ہےجس کے دیکھنے والے آج بھی موجود ہیں ۔
آپ آخری عمر میں عارضہ قلب میں مبتلا ہوگے تھے اور اس بیماری میں 25؍ جولائی 1989 بمطابق 21 ذوالحجہ 1409 ہجری بروز منگل بوقت اذانِ مغرب آپ نے وصال فرمایا۔آپ کی تدفین ڈالمیا قبرستان کراچی میں عمل میں لائی گئ،جو انوارو تجلیات کا مرکز، مرجع خاص و عام اور عقیدت گاہِ خلائق ہے۔ آپ نےاپنی اس تدفین کی جگہ کا انتخاب وصال فرمانے سے قبل خود ہی کیا تھا ۔ آپ کے وصال کے بعد آپ کے معتقدین نے مزار اقدس کے اطراف کی زمین کو خرید کر اسکی چار دیوارئی قائم کی ہے اور آپ کی مزار اقدس کی گبند کی تعمیر کےساتھ ساتھ اس احاطے میں، مسجدو محفل خانہ ،لنگر خانہ اور وضو خانہ وغیرہ قائم کرکے اسے باقاعدہ طور پر خانقاہ حضرت سید نصیر شاہ ؒقرار دیاگیا ہے ۔
حضرت سید نصیر شاہ ؒ کے وصال کے بعد آپ کے فرزند اکبر حضرت سید رزاق علی شاہ آپ کی خانقاہ کے سجادہ نشین ہوئے جب کہ حضرت مقبول احمد شمشیؒ جو کہ آپ کے مستند خلیفہ تھے ، آپ کی مسند ولایت پر جلوہ افروز ہوئے جنہیں اپنی حیات میں ہی آپ نے اپنی خلافت ونیابت سے سرفراز فرمایا تھا۔ آپ کے عرس مقدسہ اور دیگر روحانی تقریبات کا اہتمام اب اس خانقاہ واقع ڈالمیا قبرستان میں ہی کیا جاتاہے ۔حضرت مقبول احمد شمشی ؒ جو کہ صاحب نظر وسلوک بزرگ تھے نےاپنے پیر ومرشد کے وصال فرماجانے کے بعد مستقل طور پر اس خانقاہ کو اپنا مسکن بنایا اورعقیدت مندوں و وابستگان کو اپنے شیخ طریقت کی مسند کے فیوض و برکات سے مستفید فرماتے ہوئے مورخہ 7 اپریل سن 2002 بمطابق 23 محرم الحرام 1423 ہجری کو اس دارئے فانی سے رحلت فرمائی۔ حضرت سید رزاق علی شاہ کا وصال 22جنوری 2017 بمطابق 23ربیع الثانی 1438 ہجری کو ہوا ، ان دونوں بزرگوں کی لحد بھی خانقاہ کے احاط میں مرجع خلائق ہے۔ حضرت سید رزاق علی شاہ کے وصال کے بعد اب اس خانقاہ کے سجادہ نشین و منتطم اعلیٰ ، حضرت سید نصیر شاہ ؒ کے ایک اور فرزند جناب سید منیر علی شاہ ہیں ۔
حضرت سید نصیر شاہ ؒ کی خانقاہ اس لحاظ سے بھی کراچی میں اپنا ایک منفرد مقام رکھتی ہے کہ دور حاضر میں جس طرح جعلی پیرو فقیر نے تصوف کو نقصان پہنچایا اور بدنام کیا ہوا ہے اور معصوم لوگوں کو نذرانوں، تعویز گنڈوں ، روحانی علاج اور نذر ونیاز کے نام پرلوٹتے رہے ہیں، مگر الحمدللہ یہ خانقاہ اس طرح کی تمام خرافات سے پاک ہے۔ اس خانقاہ میں صرف روحانی محافل، بزرگان دین کے اعروس مقدسہ کی تفریبات اور مزار اقدس سے فیوض وبرکات حاصل کرنے کے علاوہ کوئی بھی ایسی خرافات نہیں ہوتی ہیں جس پر تنقید کی جاسکے یا اسلامی شعار پر کوئی حرف آئے۔اس خانقاہ کے معمولات میں ہے کہ ہر جمعرات کو باقاعدگی سے نماز مغرب با جماعت ادا کرنے کے بعد محفل نعت، صلوۃ السلام اور فاتحہ خوانی بعدہ ٗ تبرک چشنی کا اہتمام کیا جاتا ہے ۔ علاوہ ازیں ہر انگریزی مہینے کی پہلی جمعرات کو بعد نماز عشا ء اجتماعی ختم خواجگان کی محفل بھی منعقد ہوتی ہے ۔ ان تمام محافل میں آپ کے عقیدت مند و دیگر سلاسل کے لوگ بھی روحانی فیوض وبرکات حاصل کرنے کے لیے انتہائی عقیدت سے مجتمع ہوتے ہیں اورخیروبرکت حاصل کرتے ہیں۔ والسلام۔
مرتب کردہ: محمد سعید الرحمن، ایڈوکیٹ۔



Comments

Popular posts from this blog

دعائے حزب البحر منسوب بہ حضرت امام شیخ ابو الحسن الشاذلیؒ

حضرت عبد الکریم رحمتہ اللہ علیہ المعروف ملا فقیر اخوند، رام پوری / Hazart Abdul kareem Mulla Faqeer Akhwand

خواب کی تعبیر ( تعبیر رویا)