پاک پتن کی زیارت گاہیں و مقدس مقامات :
مرتب کردہ : محمد سعید الرحمن،ایڈوکیٹ ۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
تاریخِ مشائخ چشت میں پاک پتن شہر کو ایک خاص مقام حاصل ہے ۔ یہ شہر حضرت بابا فرید گنج شکر کا مسکن اور آپ کی آخری آرمگاہ ہونے کی وجہ سے صوفیائے چشت و دیگر سلاسل طریقت کا روحانی مرکزِ فیض ہے اور اس شہر سے عقیدت و احترام حضرت بابا فریدؒ کی محبت کا ایک جز لاینفک ہے۔ حضرت بابا فرید ؒ نے ہی اس شہر کو ایک پہچان عطا کی ہے اور آپ ہی کی وجہ سے اس شہرکو دنیا بھر میں شہرت حاصل ہوئی ہے۔ یہ شہر لاہور سے 190 کلومیٹر فاصلہ پر ہے۔ اس شہر کا پرانا نام "اجودھن" تھا ۔ جب حضرت بابا فرید الدین گنج شکر نےاس شہر کو اپنا مسکن بنایا تو آپ کی نسبت سے اس شہر کا نام اجودھن سے بدل کر "پاک پتن" کر دیا گیا تھا۔
پاک پتن شہر میں ایک اونچا پہاڑی نماٹیلہ ہے جس کو ڈھکی کہتے ہیں، اس ہی ڈھکی پر حضرت بابا فریدؒ کا مزار اقدس ہے جو مرجع خلائق بنا ہوا ہے۔ اس ٹیلے (ڈھکی)کی بلندی 80 فٹ ہے جو ایک مضبوط قلعہ کی مانند ہے۔ مورخین لکھتے ہیں کہ اس کے گرد ماضی میں چار دیواری بھی تعمیرکی گئی تھی اور مندرجہ ذیل دروازے بناے گئے تھے جن میں سے بیشتر دروازوں کے آثار اب بھی موجود ہیں ۔

لال دروازہ ۔ (یہ دروازہ جنوب کی طرف فورہ چوک کے مشرق اور ایم سی ہائی سکول اور پولیس چوکی کے سامنے واقع ہے)۔
سرکی دروازہ ۔(یہ دروازہ بابا فرید کے دربار کے مشرق جانب ہے۔ یہ درگاہ بازار کے نام سے مشہور ہے، زائرین پہلے بازار سے گزر کر اس ہی دروازے سے آیا کرتے تھے)۔

ابو دروازہ ۔ (یہ دروازہ شہر کے مشرق کی طرف پرانی سبزی منڈی کے قریب ڈھکی پر ہے)۔

شہیدی دروازہ ۔( یہ دروازہ جنوب کی طرف صرافہ بازار میں ہے، یہ بازار قدیم زمانوں میں گولڈ کی مارکیٹ تھا) ۔

موری دروازہ ۔ (یہ دروازہ شمال کی طرف گلی حضرت میاں علی محمد بسی شریف کے بلمقابل ڈھکی پر واقع ہے ،اس دروازے سے گزرنے کے لیے ایک چھوٹی کھڑکی ہے اس کی مناسبت سے اس کا نام موری دروازہ ہے۔ پاکستان سے قبل موری دروازہ کو ہانڈیاں والا دروازہ بھی کہتے تھے) ۔

رحموں دروازہ ۔(مغرب کی جانب ٹاون ہال کے بالمقابل واقع ہے۔ بابا فرید گنج شکر ؒکے دربار کے قریب ہونے کی بنا پر پہلے یہ رحمت دروازہ سے مشہور تھا بعد ازاں رحموں سے مشہور ہو تا گیا تھااور اب یہ دروازہ مزار کی طرف بند ہوگیاہے)۔

تاریخ تصوف کے مطابق حضرت بابا فریدؒ کا وصال سن 1266ء کو ہوا۔ آپ کا جسد اقدس امانتاً اس ڈھکی پر آپ کے آستانے کے عین وسط میں جہاں اب آپ کے صاحبزادے حضرت شہاب الدین گنج علمؒ کی لحد مبارک ہے دفنایا گیا، جائے امانت کا نشان اب بھی موجود ہے۔ تین روزبعد جب حضرت نظام الدین اولیاؒ تشریف لائے تو آپ کی لحد مبارک آپ کے حجرے مبارک میں تعمیر کرنے کا فیصلہ کیاگیا۔ اس حجرے مبارک کے دو دروازے ہیں ایک مشرقی جانب جسے "نور ی دروازہ " کہا جاتا ہے او ر دوسرا دروازہ جنوبی جانب ہے جسے"بہشتی دروازہ " (بابِ جنت) بھی کہا جاتا ہے۔ روضہ مبارک تعمیر ہونے کے بعد جنوبی دروازے (بہشتی دروازے) سے آپ کا جسد مبارک لاکر تدفین ثانی عمل میں لائی گی۔ اس دروازے کے بارے میں ایک روایت ہے کہ حضرت نظام الدین اولیاؒ نے چشمِ باطن سے حضورﷺ کو اس دروازے سے گزرتے دیکھا اور آپ ﷺ نے حضرت نظام الدین اولیا ؒسےسےفرمایا کہ اے نظام ! آپ باآوازِ بلند یہ کہہ دیں کہ "جو کوئی اس دروازے سے گزرے گا امان پائے گا"۔ چنانچہ حضورﷺ کا یہ فرمان بہشتی دروازے پر ان الفاظ میں رقم ہے "من داخل ھذا لباب امن"۔
جب سن 1271ء میں آپ کے صاحبزادے حضرت بدر الدین سلیمان ؒ کا وصال ہوا تو آپ کی تدفین بھی حضرت بابا فرید ؒ کے پہلو میں عمل میں لائی گئی۔ نوری دروازہ جہاں سے عام دِنوں میں زائرین گزر کر حضرت بابا صاحبؒ کی لحد تک پہنچتے ہیں پہلا مزار آپ کے متذکرہ صاحبزادے کا ہی ہے۔ علاوہ ازین دربار فرید اور پاک پتن شہر میں درج ذیل زیارت گاہیں اور مقدس عمارات بھی ہیں:

1- اولیا مسجد:
نوری دروازہ کے قریب ایک چھوٹی سی سنگ مرمر کی مسجد جس میں آپ کے خلفاء حضرات جو بھی زیارت کے لیے آیا کرتے تھے اس ہی مسجد میں عبادت کرتے تھے اور مجاہدات میں مصروف رہتے تھے، اس ہی نسبت سے اس مسجد کا نام "اولیا مسجد" ہے۔

2- گبند کلاں، روضہ حضرت علاو الدین موجود دریاؒ :
اولیا مسجد سے متصل ایک گنبد کے اندرحضرت بابا فرید ؒ کے پوتے حضرت علاوالدین موج دریاؒ فرزند حضرت بدر الدین سلیماںؒ کا مبارک ہے۔ یہ گنبد سلطان تغلق نے تعمیر کرائی تھی جو حضرت موج دریاؒ کے مرید بھی تھے۔ یہ سب سےبڑی گنبد ہے جسے گنبد کلاں کہا جاتا ہے، یہ اپنی طرز تعمیر کے لحاظ سے ایک تاریخی اہمیت رکھتا ہے، اس روضہ کے اندر جانب مشرق حضرت بابا صاحبؒ کی حرم اول (شہزادی صاحبہ) اور دو(2)صاحبزادیوں کی لحد مبارک بھی ہے۔

3-مزار مبارک حضرت شہاب الدین گنج علم ؒ :
آپ حضرت بابا صاحب کے فرزند تھے، آپکی لحد مبارک حضرت بابا صاحبؒ کے روضے مبارک کے مغربی جانب ایک کمرے نما روضے میں ہے جہاں حضرت بابا صاحب کی تدفین اول امانتاً عمل میں لائی گی تھی۔ اس کمرے میں دوسرا مزار حضرت اللہ جوایا ؒ کا ہے۔

4-حجرہ اعتکاف حضرت جمال الدین ہانسویؒ:
روضہ حضرت بابا صاحبؒ کے جنوب کی جانب آپ کے خلفاء کےحجرات ہیں جس میں جانب مشرق پہلا حجرہ حضرت جمال الدین ہانسوی ؒ کا ہے جسے برجِ جمالی کہا جاتا ہے ۔

5-حجرہ اعتکاف حضرت علاوالدین صابر ؒ :
یہ وہ حجرے جس میں حضرت علاو الدین صابرؒ لنگر تقسیم فرمایا کرتے تھے اور یہی آپ کا حجرے اعتکاف بھی تھا۔

6-حجرہ اعتکاف حضرت نظام الدین اولیاؒ :
ان ہی حجروں میں ایک حجرہ حضرت نظام الدین اولیاؒ کا ہے جس کو برجِ نظامی کہا جاتا ہے۔

7-مزاراقدس حضرت میاں علی محمد خان چشتیؒ :
حضرت میاں علی محمد خان ؒ کا وصال سن 1975ء میں لاہور میں ہوا ، اور آپ کی تدفین حضرت بابا صاحب کے دربار کے صحن میں ہوئی۔

8-مزار اقدس حضرت مولانا بدر الدین اسحاق ؒ دہلوی :
یہ مزاراس ہی ڈھکی پر دربار فرید سے شمال مشرقی جانب دو سو گز کے فاصلے پر ہے۔ اس کے ساتھ ہی ایک مسجد بھی ہے جو حضرت بابا صاحب نے تعمیر کرائی تھی اور آپ کو اس مسجد کا امام مقرر کیا تھا۔ آپ حضرت بابا صاحب کے داماد تھےاور آپ کا وصال بھی اس ہی مسجد میں ہوا تھا۔

9-مسجد علاوالدین موج دریا:
اس ہی ڈھکی پر دربار فرید سے جنوب مشرقی سے کچھ ہی فاصلے پر ایک چھوٹی سی مسجد بھی ہے، یہ مسجد حضرت علاوالدین موج دریاؒ سے منسوب ہے۔

10-مزاراقدس حضرت پیر زین باتولاؒ :
آپ کا مزار شریف شہر کےشمال مشرقی ڈھکی پر ہے۔ آپ حضرت علاو الدین موج دریا ؒ کے خلیفہ تھے۔

11-مزار اقدس حضرت سبز پیرؒ :
آپ کا مزار اقدس حضرت پیر زین باتولاؒ کے روضہ کے شمال میں ایک علیحدہ ٹیلے پر ہے۔

12۔مزاراقدس حضرت میراں شاہ گیلانی المعروف شیخ فریدثانی ؒ :
آپ کامزار شہر کے جنوب مشرق میں گھاٹی پر ہے، آپ کے مزار اقدس سے کچھ فاصلے پر شمال مغربی طرف حضرت امام صاحب بخاری ؒ کا مزار ہے۔ اس گھاٹی کے نیچے مشرقی طرف حضرت جلالؒ، سید فتح دریاؒ، اولاد حضرت سملانہ پیر (خلیفہ حضرت بابا صاحب کے مزارات ہیں۔ ان مزارات کے شمال میں تھوڑے سے فاصلے پر جانب شمال حضرت ابو الخیر گیلانیؒ اور حضرت شاہ جمال ؒ کے مزارات ہیں۔
13- مزار مبارک حضرت عبداللہ علمدار المعروف خواجہ عزیزمکیؓ:
یہ مزار شہر (ڈھکی) کی طرف مغرب میں محلہ ظفرآباد میں۔ واقع ہے۔ حضرت خواجہ عزیزمکیؓ صحابی رسول ﷺ تھے۔ حضرت بابا صاحبؒ نے اپنے باطنی تصرف سے آپ کی عظمت معلوم کرکے آپ کا مزار بنوایا تھا۔

14- مزار اقدس حضرت خواجہ عمیرمدنیؓ:
موری دروازہ کے شمالی جانب بسی شریف والی گلی میں ایک اور صحابیِ رسولﷺ حضرت خواجہ عمیرمدنیؓ کا مزار اقدس بھی واقع ہے۔ آپ کے مزار کی لمبائی تقریباً 12 فٹ ہے۔

15- زیارت گوڈری حضرت بابا صاحبؒ ؒ:
روایت ہے کہ حضرت بابا صاحب جب پاک پتن تشریف لائے تھے تو آپ نے سب سے پہلےاس ہی مقام پر قیام فرمایا تھا۔ یہ زیارت گاہ روضہ عزیز مکی اورڈھکی کے درمیان میں ہے۔

16- مزارات حضرت شیخ مودودچشتیؒ وحضرت شیخ محمودچشتیؒ :
آپ دونوں بزرگ حضرت بابا صاحبؒ کے پوتے اور حضرت علاو الدین موج دریاؒ کے بھائی تھے۔ یہ مزارت گڈری شریف کے مشرق میں چند قدم کے فاصلے پر ہیں۔ اس روضہ میں چار مزارات ہیں۔ ایک شیخ مودودؒ اور دوسرآپ کے بھائی شیخ محمودؒ اور دوسرے دو مزارت آپ کے فرزندان کے ہیں۔

17-مزارِ مبارک حضرت حافظ قائم الدین برقندازیؒ:
روضہ حضرت سیخ مودود ؒ کے مشرق میں کچھ ہی فاصلے پر ایک وسیع چار دیواری میں آپ کا مزار مبارک ہے، دوسرا مزار آپ کے فرزند کا ہے۔ آپ پیر محمد نو شہروی خلیفہ نوشاہ گنج بخش ؒ کے خلیفہ تھے۔

18- مزارِمبارک حضرت سید چراغ شاہؒ:
حضرت سید چراغ شاہ ؒ کا مزار مبارک حضرت خواجہ عزیزمکیؓ کےمزار اقدس کے شمال میں واقع ہے۔ جنوب میں حضرت پیر سلطانؒ اور حضرت قاضی شیر محمد رحمتہ اللہ علیہ کے مزارت ہیں ان مزارات کے ساتھ ہی وسیع قبرستان ہے اور اس ہی نسبت سے اس قبرستان کا نام چراغ شاہ قبرستان ہے۔
19۔ مزار شریف حضرت پیر غوث علی شاہ صابریؒ:
آپ سجادہ نشین ٹبہ فریدکوٹ اور حضرت بابا صاحبؒ کی اولاد میں سے تھے۔ آپ کا مزار شریف حضرت خواجہ عزیزمکیؓ کےمزار کےمغربی جانب میں ہے۔

20-مزار مبارک حضرت عبداللہ شاہ نو رنگ نوریؒ :
مورخین کے مطابق آپ حضرت بابا صاحب کے معصوم فرزند تھے۔ یہ مزار شہر کے جنوبی طرف گول سڑک سے کچھ فاصلے پر ہے۔ پاک پتن میں عبداللہ شاہ گراونڈ آپ کے نام سے ہی موسوم ہے،اس گروانڈ کے ساتھ ہی قبرستان ہے۔

21- مزارت حضرت خواجہ مظہر فریدچشتیؒ و دیگر بزرگان :
عبداللہ شاہ گروانڈ کے مغرب اور مزار اقدس حضرت خواجہ عزیزمکیؓ کے جنوب میں محلہ "چاہ دو ہٹہ" میں دو (2)روضے واقع ہے۔ان میں سے ایک روضہ مشرقی جانب والا حضرت خواجہ مظہر فرید چشتی ؒ کا ہے اور اس روضے میں آپ کے فرزند حضرت حاجی پیر اختیار علی شاہ چشتی ؒ کا مزار بھی ہے۔ دوسرا غربی جانب والا روضہ حضرت پیر امیر علی شاہ چشتیؒ کا ہے، اس روضے میں پیر سردار علی شاہ ؒ کا مزار بھی ہے۔ یہ تمام بزرگ حضرت بابا صاحب کی اولاد امجاد میں سے ہیں۔

22- مزارِ مبارک حضرت سید محبوب شاہ قادری ؒ :
عبد اللہ شاہ گراونڈ کے شمال میں گول سڑک کے قریب آپ کا مزار ہے۔ آپ غوث اعظم کی اولاد امجاد سے ہیں۔ اس مزار کا نام چٹی قبر ہونے کی وجہ مزار کی تعمیر میں استعمال ہونے والا سفید سنگ مرمر ہے۔

23۔ مزارِ اقدس حضرت خواجہ پیر محمد اکبرعلی نقشبندی مجددی سلطانی صدیقیؒ :
آپ سلسلہ نقش بندیہ کے ایک معروف بزرگ ہیں، نسب کے اعتبار سے عربی النسل، قریشی الاصل اور صدیقی النسب ہیں ۔ آپ کا مزار مبارک محلہ "پیر کریاں" میں مرجع خلائق ہے۔

24- مزاراقدس حضرت سید محمد علی چشتی نظا میؒ:
اس ہی محلہ "پیرکریان" میں کراچی کے ایک معروف بزرگ حضرت سید محمد علی چشتی نظامیؒ کا مزارِ اقدس بھی ہے۔آپ نے حضرت بابا فریدؒ کی محبت میں سرشار ہوکر اپنا ایک آستانہ پاک پتن میں بھی قائم کیا تھا اور اس شہر میں عموماً آپ کا قیام رہتا تھا۔ آپ کے وصال کے بعد آپ کی تدفین بھی پاک پتن میں ہی عمل میں لائی گی۔

25- مزار مبارک حضرت سخی سید امیر حیدرعلی امام المعروف چن پیر:
آپ کا مزار شہر سے تین کلومیٹر کے فاصلے پہ جنوب مشرقی جانب دریائے ستلج روڈ پر واقع ہے۔روحانی پیشوا ہونےکے علاوہ آپ نے قیام پاکستان کی تحریک میں حصہ بھی لیا تھا اور 1936ء کے الیکشن میں مسلم لیگ کے ٹکٹ پر الیکشن بھی جیتا تھا۔ آپ کا وصال 1946ء میں ہوا۔

ایسے تمام زائرین سے التماس ہے جو پاک پتن شریف حضرت بابا فرید گنج شکر رحمتہ اللہ علیہ کے روضے اقدس کی زیارت کے لیے جائیں توخصوصی طور پر وقت نکال کر ان مقدس مقامات پر بھی حاضری دینے کی ضرور سعادت حاصل کریں۔ والسلام۔دعاوں کا طالب: محمد سعید الرحمن،ایڈوکیٹ۔


Comments

Popular posts from this blog

سلسلہِ صندلیہ . حضرت علی محمد المعروف میاں صندل شاہ رحمتہ اللہ علیہ

جون ایلیا ایک تعارف