Hazrat Sayyed Ahmad Kabir Rifai Rahematullah Alaih / حضرت شیخ سید احمد کبیر رفاعی قدس سرہ العزیز

Image may contain: text
 
(سلسلہ رفاعیہ  (حضرت شیخ سید احمد کبیر رفاعی قدس سرہ العزیز 
آپ نےعالم ظاہری میں حضور اکرم ﷺ کی دست بوسی کا شرف حاصل کیا
=============================================
حضرت شیخ سید احمد کبیر رفاعی قدس سرہ کا نام احمدبن علی بن یحیٰ بن حازم بن علی بن رَفاعہ ہے۔ آپ حضرت امام حسین علیہ السلام کی اولاد میں سے ہیں،آپ کی کُنیت ابو العباس اورلقب محی الدین ہےجبکہ مسلک کے اعتبار سے آپ شافعی ہیں۔ جد امجد رفاعہ کی مناسبت سےرفاعی کہلائےجب کہ تصوف کی کتب میں یہ بھی منقول ہے کہ آپ کو یہ لقب بارگاہِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم سے عنایت ہواہے۔ آپ کی پوری زندگی خدمت خلق اورمخلوق کو فائدہ پہنچانے سے عبارت ہے۔ صوفیت کےبلنددرجات اور اعلیٰ مقام پر فائز ہونے کی وجہ سے آپ سلطان الاولیاء اورشیخ کبیر کے نام سے مشہورومعروف ہیں۔ آپ رفاعی سلسلے کے بانی ہے اوراس سلسلے کے پیروکار عرب ممالک کے علاوہ مشرق وسطی ترکی، بلقان اور جنوبی ایشیا میں بھی پائے جاتے ہیں۔

حضرت امام احمد رفاعی کی پیدائش سے چالیس دن پہلے ہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آپ کے ماموں حضرت شیخ سیدمنصوربطائحی کے خواب میں تشریف لائے تھے اور اُن کی پیدائش کی خبردیتے ہوئے فرمایا:اے منصور!آج سے چالیس دن بعد تیری بہن کے یہاں ایک لڑکا پید ا ہوگا، اس کا نام احمد رکھنا۔ وہ تمام اولیاکا سردار ہوگا جس طرح میں تمام انبیا کا سردار ہوں۔ اس کی وجہ سے میری اُمت میں شریعت وطریقت اورمعرفت کا نورپھوٹے گا۔ اس کی پیدائش کی خبر لوگوں تک پہنچادو۔ جب وہ ہوشیار ہوجائے تو تعلیم کے لیے اُسے شیخ علی قاری واسطی کے پاس بھیج دینا، اُس کی تربیت میں غفلت نہ کرنااوربطور خاص اس کا خیال رکھنا۔

حضرت امام احمد رفاعی بروز جمعرات، ماہِ رجب کے نصف اوّل یعنی (15/رجب) کو 512ھ میں مقام اُم عبید ہ کے حسن نامی ایک قصبہ میں پیدا ہوئے۔ آپ نے سات سال کی عمر میں قرآنِ مجید حِفْظ کیا، اسی سال آپ کے والدِماجد کسی کام کے سلسلے میں بغداد تشریف لے گئےاور وہیں ان کا انتقال ہوگیا۔ والد کا سایہ سر سے اُٹھ جانے کے باعث آپ کے ماموں حضرت شیخ منصور بطائحی کی آغوشِ تربیت میں آپ کی نشوو نماشروع ہوئی۔ آپ نے قرآن کریم حفظ کرنے کی سعادت مقری شیخ عبد السمیع الحربونی کی بارگاہ سے حاصل کی تھی اور پھر جب تربیت و تعلیم کے اُمور حضرت شیخ علی القاری واسطیؒ کے حوالے ہو ئے، اس وقت آپ نے عقلی ونقلی علوم میں ماہرانہ کمال پیدا کیا اور عقلی ونقلی علوم مثلاً:حدیث، تفسیر، منطق وفلسفہ نیز مروجہ علوم وغیرہ میں بطورخاص کمال ومہارت حاصل کی ۔ آپ کے مشہورومعروف اورناموروجلیل القدراساتذہ میں شیخ منصور بطائحی، شیخ عبدالسمیع حربونی، شیخ ابوالفضل واسطی، شیخ ابوالفتح محمد بن عبد الباقی، شیخ محمد بن عبد السمیع عباسی ہاشمی، شیخ ابوبکر واسطی اور عارف باللہ سیدعبد الملک بن حسین حربونی وغیرہ قابل ذکر ہیں۔

جب آپ تقریباً بیس سال کی عمرکے ہوگئے تو آپ کے شیخ طریقت حضرت شیخ علی القاری واسطی قدس سرہ نے آپ کو تمام علوم شریعت وطریقت کی اجازت عنایت فرمادی، اور اس کے ساتھ خرقہ وخلعت خلافت سے بھی سرفراز فرمایا۔ تاہم اس کے بعد بھی علم حاصل کرناجاری رکھااور اپنے ماموں حضرت شیخ سیدمنصور بطائحی سے علم فقہ میں کامل مہارت حاصل کی، شیخ سیدمنصوربطائحی قدس سرہ اپنی زندگی کے آخری لمحات میں پہنچے تواُنھوں نےحضرت امام احمد رفاعی کواپنے مرشدومربی شیخ الشیوخ کی اَمانت اور اپنے خاص وظائف کااُن سے عہد لیا، اور پھراُن کو مسندسجادگی اورمنصب ارشاد پر فائز فرمادیا۔

حضرت امام احمد رفاعی نے جس شہر علم ومعرفت میں تعلیم حاصل کیا اُسی شہر واسط میں درس وتدریس کا سلسلہ بھی شروع کیا۔خدا دادقابلیت اورانتہائی ذکاوت کی وجہ سے جب آپ کی علمی شہرت چاروں طرف پھیل گئی، تو طالبانِ علوم اپنی تشنگی بجھانے کے لیے شہر واسط کارُخ کرنے لگے اوراِس کے علاوہ عظیم علماوفضلا بھی آپ کی درس بافیض سے فیضیاب ہونے کی خاطر آپ کی خدمت میں پہنچتے اورآپکے سامنے زانوئے تلمذ طے کرتے تھے۔ حضرت امام احمد رفاعی ؒ کے درس وتدریس کا معمول یہ تھاکہ روزانہ صبح وشام حدیث، فقہ، تفسیر اورعقائد کادرس دیتے، جس میں کثرت سے طلبا شریک ہوتے تھے۔ ان میں علماوفضلا اور اپنے عہد کے مشائخ کبار بھی شامل تھے۔ آپ علوم طریقت کے شہسوار ہوتے ہوئے علوم شریعت میں بھی ید طولیٰ رکھتے تھے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق آپ نے 600 سے زائد کتب تصنیف و تالیف فرمائیں جو مرور زمانہ کے باعث اکثر ناپید ہیں۔ باقی بچ جانے والی کتب میں ’’مسند امام رفاعی‘‘ قابل ذکر ہے جو آپ کی سند سے بیان کردہ 206 احادیث نبوی ﷺ کا مجموعہ ہے۔

آپ کا سلسلہ طریقت سات واسطوں سے حضرت جنید بغدادی سے جا ملتا ہے یعنی (1) حضرت شیخ علی القاری الواسطیؒ (2) حضرت شیخ الاعظم ابوالفضل محمد بن کامخؒ(3) حضرت شیخ علی بن علام بن ترکانؒ (4) حضرت علی البازیاریؒ(5) حضرت علی العجمیؒ(6) حضرت ابوبکر الشبلیؒ (7) حضرت سید الطائفہ شیخ ابوالقاسم جنید بغدادیؒ ۔

طریقہ عالیہ رفاعیہ آپ ہی سے جاری ہے۔آپ نے مریدین ومتعلقین کے لیے ذکر و اذکار کا ایک خاص طریقہ مقرر کیا تھا جسے ''راتب رفاعیہ کہاجاتا ہے۔ راتب رفاعیہ ایک مخصوص قسم کی محفل ومجلس ہے جس میں ذکر واذکار اورمنقبت وقصیدے دف کے ساتھ پڑھے جاتے ہیں لیکن ذکر کی آواز دف کی آواز سے بلند رہا کرتی ہے۔طریقہ ذکر کا یہ حلقہ صرف خاندانِ رفاعیہ کے ساتھ مخصوص ہے۔ ذکر کے بعد ذاکرین وجدو شوق کی حالت میں آلات آہنی (مثلا گرز و شمشیر وسیخ وغیرہ) سے اپنے بدن پر ضرب لگایا کرتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی عنایت اورآپ کے فیض وبرکت سے انہیں کچھ بھی نقصان نہیں پہنچتا ہے۔راتب رفاعیہ کے بارے میں مشہور ہے کہ ا یک روز حضرت امام احمد رفاعیؒ اپنے اصحاب ومریدین کو معرفت ومحبت الٰہی کی تعلیم وہدایت دے رہے تھے، ساتھ ہی بعض خلفا کو یہ حکم بھی دیا کہ ہر شب جمعہ اور شب دوشنبہ بعد نمازِ عشا آدھی رات تک ذکرجہرونفی واثبات جلی وخفی میں مشغول رہا کرو۔ اوردل باری تعالیٰ کی جانب متوجہ رہے، اور جب تک اس حلقہ ذکرمیں رہو وجد و شوق کے ساتھ ذکر الٰہی میں مستغرق رہو ۔ نیز یہ بھی فرمایا کہ اگر تم چاہے تمھارا باطن چمک اُٹھے تو ہر شب اسے تنہا پڑھ لیا کرو ۔ اس ذکر پاک کی خاص برکات ہے کہ اس سلسلے سے منسلک اصحاب کاسانپ بچھو کو پکڑلینا،آگ میں داخل ہوجانا اور پانی پر چلنا آپ کے متواسلین میں آج تک جاری و ساری ہے۔

حضرت شیخ سید احمد کبیر رفاعی کی کرامات و تصرفات بے شمار ہیں۔ ایک روز آپ اپنے مریدین کے ہمراہ شہر واسط کے دریا کے کنارے موجود تھے کہ اچانک آپ نے نعرہ لگاتے ہوئے فرمایا کہ مجھے الہام ہواہے کہ اے احمد! اپنے جد اَمجد حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کے لیے جا، وہاں تیرے لیے ایک سعادت بھری نعمت و اَمانت رکھی ہوئی ، لہٰذا اب میں رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کے جانا چاہوں گاالغرض آپ وہاں سے لوگوں کے ساتھ اُم عبیدہ تشریف لائے اور اسبابِ سفر تیار کر کے عازم حجاز ہو گئے یہ واقعہ سن 555ہجری کا ہے۔ آپ کے حج بیت اللہ کے اِرادے کو دیکھ کر لوگوں کی ایک بڑی جماعت آپ کی معیت میں سوئے حجاز روانہ ہو گئی۔حج کے جملہ ارکان ومناسک ادا کرنے کے بعد آپ زیارتِ نبوی کے لیے روانہ ہوئے۔ اور برہنہ پیادہ پاچلتے ہوئے روضہ اقدس تک پہنچے۔اس وقت کوئی نوہزار(۹۰۰۰)سے زیادہ لوگ (آپ کے ساتھ) موجود تھے۔حضرت شیخ احمد کبیر رفاعی نمازِعصر کے بعد حرم نبوی میں داخل ہوئے۔سارے زائرین حرم اقدس اوراس کے اطراف وجوانب میں جمع تھے۔شیخ رفاعی نے قبر انور کے قریب ہو کر نہایت ادب واِنکسارسے تحفہ سلام پیش کیا: السلام علیک یا جدی فوراً انعام واِکرام کے طور پر آپ کو جواب ملا: و علیک السلام یا ولدی، جسے حاضرین نے اپنے کانوں سے سنا۔ سرورِ کائنات علیہ الصلوٰۃ و السلام کی طرف سے اس درجہ شفقت ورحمت ہونے کے باعث فرطِ ذوق وشوق میں سیداحمد کبیر رفاعی پروجد و کپکپی کی کیفیت طاری ہو گئی، کھڑے رہنے کا یارا نہ رہا۔تھوڑی دیر بعد قبر شریف سے نزدیک ہو کر اس کیفت میں دو شعر پڑھے:

فی حالۃ البعد روحی کنت ارسلہا
تقبل الارض عنی وہی نائبتی
وہذہ دولۃ الاشباح قد حضرت
فامدد یمینک کی تحظی بہا شفتی

جس کا مفہوم کچھ یوں ہے۔دوری کی حالت میں، میں اپنی روح کو خدمت اقدس میں بھیجا کرتا تھا۔ وہ میری نائب بن کر آستانہ مبارک چومتی تھی۔ اب جسموں کی حاضری کی باری آئی ہے۔ اپنا دست مبارک عطا کیجئے تا کہ میرے ہونٹ اس کو چومیں۔‘‘   آپ کی یہ التجا قبول ہوئی۔ ابھی رباعی مکمل بھی نہ ہونے پائی تھی کہ قبرمبارک شق ہوئی اورمعجزانہ طور پر آپﷺ کا معطردست مبارک چمکتے سورج کی مانند اس سے باہرنکلا،حضرت شیخ رفاعی نے فوراً اس کے بوسے لیے، جس کی برکت سے آپ فوائد ظاہری اور کمالاتِ باطنی کا مجموعہ بن گئے۔ جس وقت یہ واقعہ رونماہوا، اس وقت وہاں بہت سے اولیاء ا کرام اور مشائخ عظام جن میں شیخ عقیل المنجی، شیخ حیاۃ بن قیس الحرانی، شیخ عدی بن مسافر، شیخ عبد القادر الجیلانی، شیخ احمد الزعفرانی، اور شیخ سید عبد الرزاق الحسینی شامل ہیں وہاں موجود تھے۔ حضرت رفاعی کی یہ منقبت مسلمانوں کے درمیان درجہ تواتر کو پہنچ چکی ہے۔ اس کی سندیں عالی اور بلند مرتبہ ہیں اور اس کی روایتیں صحیح ہیں۔ تمام راویوں کا اس کی صحت و صداقت پر اتفاق ہے ۔

کسی نے حضور غوث آعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے امام رفاعی ؒ کے متعلق پوچھا تو آپ نے ارشاد فرمایا ان کا اخلاق سرتا پا شریعت اور قرآن وسنت کے عین مطابق ہے اور ان کا دل اللہ رب العزت کے ساتھ مشغول ہے انہوں نے سب کچھ چھوڑ کر سب کچھ پالیا۔ ایک روز حضرت شیخ عبد القادر الجیلانی رحمہ اللہ تعالیٰ نے اپنے خادم خاص کو سلطان العارفین شیخ احمد الکبیر الرفاعی کی بارگاہ میں بھیجا اور زبانی کہلوادیا کہ شیخ سے جا کرپوچھو ما العشق؟۔یعنی عشق کیاچیزہے؟۔حضرت سید احمد کبیر رفاعی نے خادم سے جب ما العشق سنا توایک آہِ جگر دوز سینۂ پرسوزسے نکالی اور فرمایا :العشق نار یحرق ما سوی اللّٰہ تعالیٰ۔ یعنی عشق اس آگ کو کہتے ہیں جو اللہ جل مجدہ کے سواہرچیز کو جلا کر راکھ کر دے۔
تاریخ ونسب سے متعلق کتابوں میں مذکورہے کہ آپ نے کئی ایک شادیاں کیں اور ان سے بہت سے بچے پیداہوئے۔آپ کے بارہ بیٹے اور دو بیٹیاں تھیں، جن میں سے چار صاحبزادوں کے ذریعہ آپ کا نسب جاری ہو کر مختلف ملکوں میں پھیلا، جب کہ آپ کے آٹھ بیٹے اولاد کی دولت سے محروم رہے۔

فرزند اکبرسید صالح رفاعی اپنے والدبزرگوار کی موجودگی ہی میں دنیا سے چلے گئے اور سیدی یحییٰ البخاری کے قبے میں مدفون ہیں۔ ان کے بیٹے سیدمحمد شمس الدین رفاعی جانشین ہوئے جن کی نسل واسط، بصرہ، اور سبیلیات وغیرہ میں پھیلی ہوئی ہے۔

دوسرے فرزند سید محمد معدنِ اسرار اللہ الرفاعی والد گرامی کے پردہ فرماجانے کے بعد تخت سجادگی و تولیت پر متمکن ہوئے۔ آپ کی قبرسعید مصر میں زیارت گاہِ عالم ہے۔آپ کی اولاد مصروشام، سبیلیات ومدینہ منورہ،عجم و استنبول اور ہندستان کے شہر بمبئی وسورت وغیرہ میں موجود ہے۔

تیسرے فرزند سید ابراہیم النقیب رفاعی ہیں جن کے بیٹے سید احمد صیاد رفاعی سے آپ کا نسب حویزہ، بوشہر،اوربندرریک وغیرہ میں معروف ومشہور ہے۔

چوتھے فرزند سید علی سکران رفاعی تھے جن کے بیٹے سید شمسان رفاعی سے آپ کی نسلیں عراق وماوراء النہر،اور ہندوقندھاروغیرہ میں بکھری ہوئی ہیں۔
آپ کی اولادیں اعراق کے علاوہ (ویسے تو دنیا کا کوئی حصہ آپکی اولاد سے خالی نہیں ہے) بلاد الشام - مصر - لیبیا - مراقش - فلسطین - سعودی عرب - کویت - میں زیادہ تعداد میں ہیں، بر صغیر میں اولادوں سے زیادہ مریدین کی کثرت ہے۔

شیخ کبیرسیداحمد رفاعی زندگی کے آخری موڑ پر پہنچ کر پیٹ کی ایک مہلک مرض میں مبتلا ہو گئےجس کی وجہ سے مہینہ بھر صاحب فراش رہے اور پھریہی بیماری مرضِ الموت کی شکل اختیار کرگئی۔ بالآخر66؍ سال کی عمرمیں 12؍جمادی الاولیٰ 578ھ کوشریعت وطریقت کا یہ آفتاب ہمیشہ کے لیے غروب ہوگیا، اوراپنے جد کریم شیخ یحییٰ بخاری کے گنبد تلے بمقام اُم عبیدہ، عراق میں مدفون ہوئے۔آپ کاروضہ انورآج بھی ہرخاص وعام کے لیے مرکز عقیدت کی حیثیت رکھتا ہے۔اﷲ تعالیٰ حضرت سید احمد ابن رفاعی رضی اﷲ عنہ کے علوم، روحانی امداد سے اور حال وقال سے مستفیض فرمائے اور ہمیں ان کے اور ان کے ولی دوستوں کے زمرے میں اور اپنے نبیﷺ کے لواء کے سائے میں رکھے۔ آمین۔

مرتبہ : محمد سعید الرحمن ایڈوکیٹ

Comments

Popular posts from this blog

سلسلہِ صندلیہ . حضرت علی محمد المعروف میاں صندل شاہ رحمتہ اللہ علیہ

جون ایلیا ایک تعارف