حضرت سرمد شہید رحمتہ اللہ علیہ (منصور ہند) Sarmad Shaheed


Image may contain: tree, sky and outdoor
حضرت سرمد شہید رحمتہ اللہ علیہ  (منصور ہند)
 عہد عالمگیری  میں مذہب کے نام پر ایک مجذوب  کا سیاسی قتل
============================ 
 حضرت مولاناابو الکلام  آزادؒ   فرماتے ہیں عشق کی شورش انگیزیاں ہر جگہ  یکساں ہوتی ہیں گو کہ  ہر عاشق قیس نہیں ہوتا ہےمگروہ  مجنون ضرور ہوتا ہے۔ جب عشق وارد ہوتا ہے تو وہ   عقل وحواس سے کہتا ہے کہ میرے لیےجگہ خالی کردو۔ حضرت سرمد  شہید پر بھی یہی کیفیت طاری ہوئی  تھی اورآپ پرجذب وجنون اس طرح چھایا کہ ہوش وحواس کے ساتھ مال ومتاع ِ تجارت بھی غارت کردیا  تھا  حتی کہ دنیاوی تعلقات میں جسم پوشی  کی بیڑی باقی رہ گئی تھی ، آخر میں اس سے بھی  چھٹکار ا حاصل کرلیا کہ لباس کی پابندیاں تو  اہل خرد کے لیے ہوتی ہیں۔حضرت مولانا ابوالکلام آزادؒ  حضرت سرمد  شہیدپر اپنی تحریر کی ہوئی کتاب ’حیاتِ سرمد‘ میں یہ بھی لکھتے ہیں کہ دنیا میں ایسے ترازو بھی ہیں جن کے ایک پلے میں اگر دیوانگی رکھ دی جائے تو دوسرا پلہ تمام عالم کی ہوشیاری رکھ دینے سے بھی نہیں جُھک سکتا اور پھر ایسے خریدار بھی ہیں جن کو اگر ہوش و حواس کا تمام سرمایہ دے دینے سے ایک ذرہ جنون مل سکتا ہو تو وہ بازار یوسف کی طرح ہر طرف سے ہجوم کریں۔

 اس حقیقت   سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ حضرت سرمد  شہیدجنہیں عہد عالمگیری میں مذہب کے نام پر سزائے موت دی گئی تھی، اب وہی شخصیت مذہبی تاریخ کا ایک دلچسپ باب  ہونے کے علاوہ  ہندوستان کی تاریخ میں ایک باعزت مقام  کی حامل ہے اور انہیں پاک وہند کے صوفیوں میں شمار کیا جاتا ہے اور آپ کے نام کے ساتھ حضرت ،  شہید و رحمتہ اللہ علیہ کے القاب لگائے جاتے ہیں ۔  حضرت گڈری شاہ ؒ  جو قادری  سلسلے کے ایک بزرگ ہیں اور آپ کو چشتیہ سلسلہ  کا فیض بھی حاصل ہے حضرت سرمد  شہیدؒ  کو اولیاء میں شمار کرتے ہیں اور حضرت نواب گڈری شاہ  کے ایک سجادہ نشین حضرت  ڈاکٹر ظہور الحسن شارپ ؒ نے اپنی کتاب اولیاء پاک وہند  میں آپ کو اولیاء اللہ  کی فہرست میں شامل کرکے آپ کا تذکرہ   بھی بڑی شد ومد کے ساتھ کیا ہے ، جب کہ حضرت سرمد کا کوئی روحانی سلسلہ نہیں ہے اور نہ ہی آپ  تصوف کے کسی خانوادے سے منسلک رہے تھے ۔البتہ  حضرت سرمد  شہید ؒنے اپنی شاعری کے ذریعے علامتی انداز میں زندگی کی حقیقت کو فاش کیاہے  اورصوفی شاعری میں حقیقت اور مجاز کے تعلق کو بطریق احسن بیان کیا ہے ۔اس لیے ہر استعارا کسی نہ کسی حقیقت کو سامنے لاتا ہے سرمد کی شاعری زندگی اور موت کی حقیقت کے اسرار کو فاش کرتی ہے۔ اس کے اشعار و اقوال سے عیاں ہوتا ہے کہ وہ وحدت ادیان کا قائل تھا۔

 حضرت سرمد  شہیدکا خاندانی نام   کسی کو نہیں معلوم ہے اور نہ ہی یہ معلوم ہوسکا کہ قبول اسلام کے بعد آپ کا کیا نام رکھا گیا۔  صرف سرمد  ہی کے لقب سے  تذکروں میں   آپ کا ذکر ملتاہے۔  بعض تذکرہ نگاروں نے سعید ائے سرمد کے عنوان سے آپ کے حالات درج کیے ہیں اس سے قیاس ہوتا ہے کہ آپ کا اسلامی  نام  شایدسعید ہو۔

سرمد کے وطن کے بارے میں  تمام محقیقن متفق ہیں کہ  آپ ایرانی النسل تھےاور  بنیادی طور پر  یہودی مذہب سے تعلق رکھتے تھے اور یہودیوں کے اس معزر طبقے سے آپ کا تعلق تھا جنہیںربی   کہتے ہیں۔ تاریخ سے یہ بھی معلوم چلتا ہے کہ آپ توریت کے حافظ تھے اور اسے خوش الحانی سے پڑھا کرتے تھے اور بعد میں یہودی عقائد  اور تورات کا بغور مطالعہ کرنے کے بعد آپ مسلمان ہوگئے اور پھرایران کے مشہور  عالم ملا صدر  اور میر ابو القاسم کی خدمت میں حاضر ہوکر  حکمت  وفلسفہ کی تکمیل کی  ۔

اس کے بعد تجارت کی غرض سے  ہندوستان کو روانہ ہوئے ، اس زمانےمیں ایرانی مصنوعات کی ہندوستان میں بہت مانگ تھی اور ایران سے سیاح سندھ ہوکرہندوستان آتےتھے۔آپ بھی اسی راستےسےآئے۔ جب  ٹھٹھہ پہنچے توایک ہندولڑکے جس کا نام  ابھے چند  تھاپرعاشق ہوگئے۔ایسےازخود رفتہ ہوئےکہ نہ اپناہوش تھااورنہ تجارتی سامان کی کوئی پرواہ کیاور مال ومتاع کے ساتھ سب حکمت وفلسفہ بلکہ عقل وتمیز  کھو بیٹھا  اور لباس ترک کرکے سنیاسیوں کی طرح  معشوق کے در پر دھونی رمائی۔ جب ابھے چند کے والد نے دیکھا کہ سرمد کی محبت پاک  اور خیالات  منزہ ہیں تو اس نےسرمد اور اپنے بیٹے کے تعلقات میں روڑے نہیں اٹکائے۔
 پھر وہ وقت بھی آیا ٹھٹھہ میں محفلِ موسیقی کے انعقاد  کے دوران حضرت سرمد شہید ایک طرف شعرکہتے ، دوسری طرف ابھے جیت اسی عرفانی شاعری کو گاتا ، اور حضرت سرمد شہید اسکی آواز میں  دھمال ڈالتے ۔ اسی کیف و مستی میں آپ نے ابھے جیت کو "خدا" کہنا شروع کردیا تھا ، حضرت سرمد  شہید سے جب اس کی وضاحت چاہی تو اس نے کہا کہ  اس  ابھے چند میں اپنے خُدا کا جلوہ نظر آتا تھا ۔آپ  کا کہنا تھا کہ خدا دنیا کے ہر مظہر میں دکھائی دیتا ہے اور اس کو ابھے چند میں خدا دکھتا ہے۔ عشق نےاس کی زندگی میں ایک نمایاں تبدیلی پیداکی۔ انسان کا دل جب تک چوٹ نہ کھائے وہ  دنیا کی لذتوں کو نہیں چھوڑتا اور یہ چوٹ صرف عشق ہی کے ہاتھوں لگ سکتی ہے۔

حضرت سرمد شہید عام طور پر عالم سُکر میں رہتے تھے۔ شب و روز عشق و مستی اور استغراق میں گذرتے۔  آپ ایک عرصہ تک اسی وادی میں سر گردان علامت رہے۔ آخر اللہ تعالیٰ نے عشق مجازی سے عشق حقیقی کی توفیق دی اور آپ پر مکمل جذب طاری ہوگیا۔ دیوانہ وار برہنہ جسم بازاروں میں گھومتے ویرانوں میں چلے جاتے۔ عالم سُکر میں نعرہ بلند کرتے رہے۔  ابھے چند نے سرمد سے تورات  اور انجیل  اور دوسری مذہبی کتابیں پڑھیں اور اُس نے بھی فارسی شعر گوئی شروع کی ۔  

حضرت سرمد شہید نے ایک عرصہ لاہور اور پھر کچھ عرصہ حیدرآباد دکن میں بھی گزارا  جہاں بادشاہ عبداللہ قطب شاہ اور اس کے زیرک وزیر شیخ محمد خان نے آپ کی بہت تعظیم کی۔ عقیدت مندوں کا حلقہ ہر وقت آپ کے گرد جمع رہتا تھااور یہاں ہی  آپ کی پہلی  ملاقات سن 1647عیسوی میں    دبستان مذاہب  کے مصنف   محسن   فانی سے بھی ہوئی۔ محسن فانی  آزاد گروہ  سے تعلق  رکھنے والے ایک قلم کار تھے جو  شہزادہ داراشکوہ کے مصاحبوں میں شامل تھےجنہوں نے آپ کے حالات کسی قدر تفصیل سے اپنی کتاب دبستانِ مذاہب میں درج کیے ہیں۔جس وقت دبستان مذاہب لکھی گئی   حضرت سرمد  شہیدبقید حیات تھے ۔ابھے چند نے جس کی وجہ سے حضرت سرمد  شہیدنے ترک لباس کیا تھا حضرت  سرمد  شہیدکی رفاقت اختیار کرلی تھی اور  وہ  بھی اس کے ساتھ حیدرآباد دکن میں موجود تھا۔ جب دبستان   مذاہب کے مصنف نے  اپنی کتاب کے لیے یہودی عقائد کی تفصیل چاہی  تو ابھے چند  نے  ہی تورات کے ایک باب (کتاب پیدائش) کے ابتدائی حصے کا فارسی   میں ترجمہ کیا جو  حضرت سرمد شہید کی  تصحیح  اور نظر ثانی کے بعد کتاب میں درج ہوا۔اس کے بعد حضرت سرمد  شہیدشاہجہان آباد  دہلی آگئے۔ قیاس ہے کہ وہ آوارہ گردی کرتےہوئے دہلی نہیں پہنچے تھے بلکہ دارا شکوہ نے آپ کو خود دہلی بلایا تھا کیونکہ آپ کی دارا شکوہ کے ساتھ خط کتابت بھی  رہی تھی۔ داراشکوہ کو تصوف سے دلچسپی تھی اور دیوانہ مزاج  لوگوں سے خاص عقیدت رکھتا تھا ،  دہلی   میں حضرت سر مد  شہیدنے اس کی مصاحبت اختیار کرلی  اور  یہی مصاحبت اس کی موت کا  باعث ہوئی۔

جب عالمگیر   تخت نشین  ہوا  اور ملک کے معاملات کو  شرح  کے قواعد  پر ترتیب دینے شروع کیے  تو اس  نے حضرت  سرمد شہید  کی برہنگی کو  بھی  خلاف شرع اور لائق تعزیر  سمجھا۔ اورنگ زیب عالمگیر  کا دل  حضرت سرمد شہید  کی طرف سے صاف نہ تھا، کیوں کہ اس نے داراشکوہ کے بادشاہ ہونے کی پیشین گوئی کی تھی۔چنانچہ  اس نے  ملا  عبدالقوی  کو  بھیجا کہ وہ حضرت   سرمد شہید کو  کپڑے پہنے کی تاکید کرئے،  ملا  عبد القوی نے حضرت سرمد  شہیدکو بلایا اور پوچھا  کہ تم برہنہ کیوں رہتے ہو ؟   حضرت سرمد شہید نے  اس  وقت نجانے کس لہر میں کہدیا ، کیا کروں  شیطان قوی است ۔ دبستان  مذاہب میں تحریر ہے کہ  سرمد کہا کرتا تھا کہ یہودی مذہب میں برہنگی عیب نہیں اور حضرت  اشعیا  بھی آخری عمر  میں برہنہ رہتے تھے۔ بہرحال ملا قوی کو  شیطان قوی است کا  یہ جملہ  خاص طور پر کڑوا  معلوم  ہوا  مگر برہنگی  وجہ قتل  نہ ہوسکتی تھی  اس لیے فرد  جرم میں مزید اضافہ کرنے کے لیے اس کی ایک رباعی جس میں اُس نے دعوی کیا تھا کہ افلاک محمدﷺ کے سینے میں سما گئے جبکہ آپ افلاک پر نہیں گئے تھے کو بھی شامل کیا گیا۔
ہرکس کہ سرحقیقتش بادرشد
 اوپہن ترازسپہرپہنادرشد
 ملاگویدکہ برفلک شداحمد
 سرمدگویدفلک بہ احمد درشد

  اورنگ زیب عالمگیر  کیوں کہ محتاط طبعیت  کا مالک تھا،  اس نے فرد جرم کو کافی نہیں سمجھا،  اسے یہ بھی  معلوم تھا کہ سرمد پورا کلمہ نہیں پڑھتا ہے لہذا اس کو کلمہ پڑھنے کا کہا جائے۔ا ورنگ زیب نےعلماء کومخاطب کرکےکہا "محض برہنگی وجہ قتل نہیں ہوسکتی،اس سےکہوکہ کلمہ طیبہ پڑے۔ آپ سےکلمہ طیبہ پڑھنےکوکہاگیا۔آپ نےعادات کےموافق لاالٰہ پڑھا۔جب علماءنےیہ جملہ نفی سناتوسخت برہم ہوئے،آپ نےجواب دیاکہ "ابھی تومیں نفی میں مستغرق ہوں،مرتبہ اثبات تک نہیں پہنچاہوں،اگرالااللہ کہوں گاتوجھوٹ ہوگا"۔ علماءنےآپس میں طےکیا اور فتویٰ صادر کیاکہ آپ کایہ فعل کفرہے اور واجب القتل ہے۔ شاہ اسد اللہ، ایک صاحب دل بزرگ، سرمد کے پرانے رفیق تھے،  بعد صدور فتوٰی انہوں نے کہا: "کپڑے پہن لیجیے اور پورا کلمہ پڑھ لیجیے تاکہ جاں بخشی ہو جائے-" سرمد نے جواب نہ دیا- ایک نظر ڈالی اور یہ شعر پڑھا:
عمر یست کہ آوازہ منصور کہن شد
من از سر نو جلوہ دہم دار و رسن را
(منصور کا قصہ پرانا ہوچکا ہے اب  میں پھر سے  دار پر چڑھوں  گا اور رسی کھینچی جائے گی)

بہرحال آپ پر جو جو فرد جرم لگائی گی  وہ سیاسی امیزش سے خالی نہیں تھی، کاش وہ بھی  دارشکوہ کے ساتھ دہلی چھوڑ کر چلا جاتا،  ور نہ سرمد  جیسے  برہنہ مجذوب  اور آزاد گفتگو کرنے والے ہر گلی کوچے میں پھرتے ہیں  اور کوئی ان کا پرسان حال نہیں ہوتا۔الغرض دوسرےدن آپ  کوقتل  کے لیے جامع مسجد کے سامنے لایا گیا  کہتے ہیں قتل کے وقت سرمد ہشاش بشاہش تھا، جب جلاد سامنے آیا توآپ اسے دیکھ کرمسکرائے۔نظراٹھائی اورملائی اوریہ تاریخ الفاظ ادا فرمائے۔ "فدائےتوشوم،بیا،بیاکہ توبہرصورتےکہ می آئی من تراخوب می شناسم"۔

 جب اس کے سر کو تن سے علیحدہ کیا گیا تو ایک عجیب وغریب معجزہ  رونماہوا، حضرت سرمد  شہید کا وجود حرکت میں آگیا اور الہ اللہ کا رقص شُروع کردیا ۔اس کے ساتھ سرمد کے سر نے لاالہ الا اللہ کا کلمہ کئی مرتبہ ادا کیا۔ حضرت سرمد  شہیدکا  دہلی میں کون تھا جو اس کے قتل پر  آہ وبکا کرتا ایک دارشکوہ تھا وہ بھی اپنے بھائی کے خلاف جنگ کرکے ابدی نیند سوچکا تھا اور اس کے معتقدین اقتدار کے خلاف آواز بلند نہیں کرسکتے تھے ۔ جب عالمگیر اقتدار میں رہا  حضرت سرمد شہیدگوشے گمنامی میں چلا گئے۔ خود اس وقت کے مورخین نے   اقتدار کے خوف سے نصف صدی تک اپنی زبان بند رکھی اور آپ کا تذکرہ لکھنے سے گریز کیا۔ آج جب کہ سرمد کو شہید ہوئے تقریبا ً   ساڑھے تین سو سال   گزر چکےہیں  اور مغلیہ سلطنت کے صرف کھنڈرات باقی رہ گئے ہیں ، لیکن قدرت کی یہ بھی کاریگری دیکھ لیں کہ جس طرح اس نے اپنے گھر(جامع مسجد) کی حفاظت کر رکھی ہے ، اسی طرح اپنے عاشق زار کی لحد مبارک  کو بھی زمانے کے حوادث سے باقی و محفوظ رکھا  ہواہے۔ مخبرالواصلین نے واقعہ قتل کی تاریخ 26 شعبان المکرم 1070ھ لکھا ہے ۔

آپ کامزاردہلی جامع مسجدکےنیچےفیوض وبرکات کاسرچشمہ ہے۔پیر و جواں ، مرد و خواتین بلاتفریق   اس کے مزار پر عقیدت مندی کے ساتھ فاتحہ خوانی کرتے نظر آتے ہیں ۔   مورخین لکھتے ہیں کہ  عہد عالمگیری کے اس مقتول کا جرم وہی تھا  جوحضرت منصور حلاج ؒسے سرزدہ ہوا تھا  کہ اپنے فکری موقف پر استقامت۔  
  والسلام  (محمد سعید الرحمن ایڈوکیٹ)
 حاصل مطالعہ:
 تذکرہ اولیاءِ پاک و ہند،  مقالہ شہید سرمد از حیدر جاوید سید، حیات سرمد از مولانا عبد الکلام آذاد،    رود کوثر از شیخ محمد اکرام، مقالہ صوفی شاعر از نایاب حسین سید، مقالہ سرمد از آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا، مقالہ منصورہند صوفی سرمد شہید ؒ  از افتخاررحمانی ، نئی دہلی اور مقالہ اورنگ زیب کو سرمد پر غصہ کیوں تھا  از ابو بکر شیخ ۔




Comments

Popular posts from this blog

سلسلہِ صندلیہ . حضرت علی محمد المعروف میاں صندل شاہ رحمتہ اللہ علیہ

جون ایلیا ایک تعارف